'' آئین کی منشاء ہے اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں انتخابات ہوں ''

Mar 31, 2023 | 11:50:AM

(امانت کشگوری) چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین کے پابند ہیں، ہم لوگ ان میں سے ہیں جن کو گھروں میں نظر بند کیا گیا، ہم صرف آئین پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں، آئین کی منشاء ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں انتخابات ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

پاکستان چیئرمین بار کے چیئرمین ایگزیکٹو حسن رضا پاشا سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔ چیئرمین ایگزیکٹو پاکستان بار حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کونسل کا کسی کی حمایت سے تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بنچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس بلا لیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں، سپریم کورٹ کے ججز میں اتفاق ہے، کل اور آج دو ججز نے سماعت سے معزرت کی، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر پریس کانفرنسز کے ذریعے تیل ڈالا گیا، سپریم کورٹ نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لوگ مختلف ججز پر تنقید کر رہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے، باہمی احترام اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی ہوگی، کچھ نکات پر ہماری بار کونسل سے گفتگو ضروری ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ پہلی بار عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، سماعت کے بعد کچھ اہم ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے پیر کا سورج اچھی نوید لیکر طلوع ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، ہم آئین کے پابند ہیں، ہم لوگ ان میں سے ہیں جن کو گھروں میں نظر بند کیا گیا، ہم صرف آئین پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں، آئین میں 90 دن میں الیکشن کرانے کی بات موجود ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کیلئے فریقین کو ہدایت کی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ درجہ حرارت کم کرنے کیلئے آپ نے کیا کیا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر آگئے، نوے کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، آئین و جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، نوے دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے، اٹارنی جنرل صاحب 2 چیزیں ہیں پہلی 20 ارب روپے کی رقم کا بندوبست کرنا جو آپ آسانی سے کر سکتے ہیں، دوسرا سیکیورٹی ایشو ہے جس میں 50 فیصد نارمل اور 50 فیصد ایسے پولنگ سٹیشن ہیں جو نارمل نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل کی تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو سماعت میں کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ با اختیار فیصلہ ہے، ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے، 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، ہم نے اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل بنچ سے الگ ہو چکے ہیں، دوسرا نقطہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، نو رکنی بنچ کے دو اراکین نے رضاکارانہ بنچ سے علیدگی اختیار کی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بنچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے۔

اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بنچ کی ازسر نو تشکیل کیلئے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ججز تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہئے، درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی دل رکھتے ہیں، ہمارے بھی احساسات ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی ریمارکس دیتے ہوئے آواز بھر آئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، عدالتی بنچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بنچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور رجسٹری میں بنچ تھا، 9 رکنی بنچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا، دو سال جسٹس فائز عیسی کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس فائز عیسی کیلئے بھی مقدمہ سننا سزا ہی تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس کی بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر اس جج کیخلاف پہلے شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آڈیو لیک کی بنیاد پر جج کو کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ آج تک کیا آئیں اور قانون کے مطابق کیا، جج کے ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کرے، ٹیکس کے معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں، جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی سے روکا تھا، انہوں نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاوں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنے دلائل جلدی ختم کر دونگا۔ وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔

وکیل عرفان قادر نے عدالت سے استدعا کی کہ میں صرف 3 منٹ بات کروں گا، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔ وکیل عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصرا بات مکمل کرنے کی کوشش کرونگا۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈ میں کتنی رقم موجود ہے، اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، پندرہ سو ارب خسارے میں بیس ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فنڈ وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈ اسٹیٹ بنک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بنک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، سسٹیٹ بنک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فرض کریں کہ اگر خسارہ اکتوبر تک رہا تو پھر کیا ہوگا، اس کیس میں مشکل یہ ہے کہ فریقین وہ ہیں جو رولنگ کلاس سیاسی جماعتیں ہیں، سب سیاسی جماعتیں یہ معاملہ خود حل کیوں نہیں کرتیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فل کورٹ کی استدعا سن لی ہے یہ بتائیں کہ الیکشن کی تاریخ کیسے دینی ہے، اگر الیکشن کرانے کے ذرائع نہیں ہیں تو بتائیں ہم ذرائع دینگے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تین ایشوز پر بات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021 کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں، فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے، حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بنچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی چیف جسٹس بنچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کا ذکر کرنے کی نہیں تھی، عدالت کے باہر درجہ حرارت بہت زیادہ ہے، تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی قانون کی بات کرنا چاہتا ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ شاید تین منٹ بات کر کے لاہور جانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی منشاء ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں انتخابات ہوں، نوے دن میں الیکشن نہیں ہو سکتے تو مزید کتنے دن درکار ہوں گے، عدالت نے اس نقطے پر غور کرنا ہے، عوام جاننا چاہتے ہیں الیکشن کب ہوں گے، انتخابات تک تمام فریقین سے پر امن رہنے کی گارنٹی چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پرامن انتخابات کیلئے وسائل کی ضرورت ہوئی تو اس کا حکم دینگے، اگر افواج پاکستان کو بلانا پڑا تو اس کا حکم بھی جاری کرینگے، سیاسی جماعتوں نے دی گئی گارنٹی کی خلاف ورزی کی تو نتائج بھگتنا ہونگے، حکومت اور پی ٹی آئی اگر درجہ حرارت کم کرنے کی گارنٹی نہیں دیتی تو یہ نامناسب ہوگا۔

سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت پیر دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

قبل ازیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو سننے سے قبل جسٹس جمال خان مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز کا جو حکم نامہ آیا اس سے متعلق مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، میں گھر پر موجود تھا مگر پھر بھی مجھ سے مشاورت نہ کی گئی، میں اور میرے ساتھی ججز آئین کی بقا چاہتے ہیں، جسٹس امین الدین خان کے فیصلے کے بعد حکم نامہ کا انتظار تھا، مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر میں موصول ہوا۔

اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ حکم نامہ پڑھ کر سنائیں۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس جمال مندوخیل کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکم نامہ پر میں نے الگ سے نوٹ تحریر کیا، میں بنچ کا ممبر تھا، میں سمجھتا ہوں بنچ میں مس فٹ ہوں، میری دعا ہے اس کیس کا ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نیا بنچ کچھ دیر بعد تشکیل دیا جائیگا، اعلان کمرہ عدالت میں ہوگا۔

خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بینچ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا، آج ایک معزز جج نے معذرت کر لی، ایک بات ثابت ہو رہی ہے اعتماد کا فقدان ہے، پہلے دن سے فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر اعتماد بحال رکھنا ہے تو فل کورٹ بننا چاہیے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ لڑائی جھگڑے سیاست کے کلچر کا حصہ ہیں لیکن لڑائی جھگڑا عدالتی کلچر کا حصہ نہیں ہے، پوری قوم کی آئین اور انصاف کیلئے امیدیں اسی ادارے سے ہیں۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشنز مسترد

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز کو مسترد کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکولر جاری کر دیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کر دہ سرکلر میں کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا، اس انداز میں بنچ کا سوموٹو لینا پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں، فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔

سرکولر میں مزید کہا گیا کہ جس معاملے پر 5 رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہو، اس پر 2 ججز کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، یہ حکم 5 رکنی لارجر بینچ کےبنائےگئے قوانین کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 184 (3) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات پر سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم تک ملتوی کر دی جائے۔

واضح رہے سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین احمد اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل بینچ نے میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے ازخود نوٹس کیس کی دو ہفتے قبل سماعت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد امین کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک عدالتی ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے تب تک چیف جسٹس کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے از خود نوٹسز سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کر دی جائے۔

کیس کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا، خصوصی بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید شامل ہیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری کے تمام کیسز کو ملتوی کر دیا جائے۔

مزیدخبریں