حقیقی آزاد ی مارچ اپنے مقاصد حاصل کرپائے گا یا نہیں؟ اسلام آباد پہنچے گا یا پہلے ہی ختم ہوجائے گا؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن یہ سیاسی مارچ صحافی برادری پر بھاری پڑا ،عمران خان کا کنٹینر خاتون رپورٹر صدف نعیم کی جان لے گیا ،صحافی برادری اور شہید ہونے والی صحافی کا خاندان غم میں ڈوبا ہے لیکن عمران خان اسی طمطراق سے مارچ کا دوبارہ آغاز کرچکے ہیں ۔شہید رپورٹر کی موت کیسے ہوئی ؟ متاثرہ خاندان نے کارروائی کرنے سے انکار کیوں کیا ؟ اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں ۔
ضرور پڑھیں :خاتون صحافی صدف نعیم کو سپردخاک کر دیا گیا
واقعہ کے عینی شاہد صحافی افضل سیال دعویٰ ہے کہ صدف نعیم کو عمران خان کے سیکیورٹی گارڈز نے دھکا دیا ،وہ کہتے ہیں کہ ’’جی ٹی روڈ سادھوکی میں عمران خان کے خطاب کے بعد مختلف چینلز کے کل تین رپورٹرز اپنے کیمرہ مینوں کے ساتھ عمران خان کے کنٹینر کے دروازے والی سائیڈ سے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے تاکہ عمران خان کا شاٹ لیا جا سکے، کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگنے والوں میں دنیا نیوزکے اخلاق باجوہ انکے کیمرہ مین آصف پرویز ٹوبہ، نیو ٹی وی کے کاشف سلمان اور انکے کیمرہ مین اور پانچویں صدف نعیم تھی جو ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی ، کوئی دو سے تین کلومیٹر بھاگنے کے بعد جب کنٹینر پر چڑھنے کی اجازت نہیں ملی تو اخلاق باجوہ صاحب پیچھے تھے ،اسی اثنا میں شہید خاتون رپورٹر نے کنٹینر کے دروازے کو ہاتھ ڈالا ،عمران خان کے دو سیکورٹی گارڈ جو کنٹینر کے دروازے پر مامور تھے ان میں سے ایک نے صدف کوُ دھکا دیا اور وہ گر گئی ، جیسے وہ گری کنٹینر کے ٹائر نے صدف نعیم کا سر کچل دیا اور صدف نعیم موقع پر شہید ہو گئیں‘‘۔
وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے دنیا نیوز کے کیمرہ مین آصف پرویز نے جب یہ دیکھا تو اس نے شور کیا جسکے بعد عمران خان کے گارڈز نے بے شرمی کی انتہا کردی اور ویڈیو بنانے والے کیمرہ مینوں کو کنٹینر کے اوپر سے پانی والی بوتلیں مارنی شروع کردیں اور جو گارڈز کنٹینر کے دروازے پر تعینات تھے وہ نیچے اترے اور ویڈیو بنانے والوں کو زد و کوب کرنا شروع کردیا اور اونچی آواز میں کہتے رہے کوئی ویڈیو مت بنائے ، کسی ایک ویڈیو بنانے والے کا موبائل بھی چھیناگیا اس کے بعد صدف کی ڈیڈ باڈی کو ریسیکو کیا گیا عمران خان جب نیچے اترے تو اسکے گارڈ صدف نعیم کو کنٹینر سے دھکا دیکرقتل کر چکے تھے‘‘۔
کچھ دیگر لوگوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کنٹینرز پر سیکیورٹی گارڈز نے دھکا نہیں دیا بلکہ صدف نعیم کا پائوں روڈ پر موجود ڈھلوان میں پھسلا اور وہ گرگئیں ۔گرتے ہی کنٹینرکے ٹائروں تلے کچلی گئیں ۔اب کس کی بات ،کس کے موقف میں صداقت ہے؟ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں تھیں لیکن نہ کوئی مقدمہ ہوا،نہ کوئی تحقیق ۔پی ٹی آئی والوں نے شہید کے خاوند اور بھائی سے معاملات طے کیے اور کاغذات پر دستخط کروالیے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ حادثہ اتفاقی تھا تو میڈیا کو کوریج سے کیوں روکا گیا؟ کیمرے کیوں چھینے گئے؟ صحافیوں پر پولیس نے تشدد کیوں کیا گیا؟ اگر صحافیوں کو کوریج سے نہیں روکا گیا تو پھر ان پر تشدد کیوں ہوں؟ اگر پولیس نے تشدد نہیں کیا تو پھر ایس ایچ او سمیت 5 پولیس اہلکاروں کو کیوں معطل کیا گیا ؟
ابھی ارشد شریف کی شہادت کے زخم تازہ تھے کہ صحافی برادری کو ایک اور زخم مل گیا ،ایسا کیوں ہے؟ کیا دلیل ختم ہوگئی کہ مخالفت کرنے والے کا علاج صرف زبان بندی ہی رہ گئی ؟ صحافت کو پھولوں کا ہار سمجھنے والے او ر ’’لفافوں‘‘کے طعنے دینے والے یہ بھی خیال رکھیں کہ یہ کانٹوں کی سیج ہے،ابدی زندگی کی طرف لے جانے والا خاردار راستہ ہے ۔
صحافیوں کے ساتھ ایک اور جو ظلم ہوتا ہے وہ ان کے وہ ادارے ہیں جن میں یہ نوکریاں کرتے ہیں۔ اداروں کے مالکان مختلف بہانے بنا کر تنخواہیں روک لیتے ہیں،۔ اگر کسی صحافی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کے وارث بننے سے انکار کردیتے ہیں، کوئی صحافی بڑا بول بول دے تو اپنا ادارہ بچانے کیلئے نوکری سے ہی نکال دیتے ہیں۔پتا چلا ہے کہ صدف نعیم کو بھی تین ماہ کی تنخواہ نہیں ملی تھی ۔صدف نعیم پر ایک تو معاشی دبائو تھا ،دوسرا ادارے کی طرف سے بریکنگ کیلئے ایکسکلوسیوساٹ کا پریشر تھا ۔
طاقتوز ادارے اور سیاستدان چاہتے ہیں کہ ان کے ہر سیاہ و سفید کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کے پیرائے میں دیکھا جائے۔ ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، پتھر کو گہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما دکھایا جائے۔ بے حال عوام کو خوشحال لکھا جائے۔ ویران گلیوں، سنسان راستوں، اجڑے چمن میں ہریالی ہی ہریالی پیش کی جائے۔ خیر یہ ان کی چاہت ہے، ایک ہماری چاہت ہے، ہوگا وہی جو ہمارے رب کی چاہت ہے۔
یہ چاہتے کیا ہیں؟ ان کی چاہت ہے کہ یہ ان قصیدہ خواں بنے رہیں، جو ہم کہیں وہی سنیں، جو ہم بولیں وہی لکھیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سوال اٹھانے کے قابل نہ رہے، یہ چاہتے کہ کوئی دانش کی بات نہ کرسکے، یہ چاہتے ہیں کہ جو ہم کہیں اسی کو سچ سمجھ کر قبول کیا جائے۔ یہ بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔
عہد حاضر کے بچے دس سال سے پیچھے نہیں سوچتے۔ یہ بچے ’’لانگ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔ 10 سال سے پیچھے ان کے دماغ بند ہوجاتے ہیں۔ پہلے کیا سے کیا ہوتا رہا ؟ کچھ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔یہ لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی سچ جان سکے ۔
یہ ایک سوچ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ اداروں کو بانجھ کرنے، ذہنوں کو قید کرنے کا کام تین دہائیاں پہلے شروع کیا گیا۔ اب اس کا پھل اٹھا رہے ہیں۔ ایک ایک کرکے عقل وشعور کی بات کرنے والے ادارے بانجھ بنادیئے گئے، اب وہ انقلابی شاعر نہیں ملیں گے جن کے ایک ایک مصرعے پر شرکاء میں زلزلہ پیدا ہوجاتا، اب وہ لکھاری نہیں رہے جن کے جملے دستور بن جاتے، اب وہ طلبا نہیں جن کے نعروں سے ایوان کانپتے تھے، اب تو تعلیمی ادارے برائلر پالنے والے مرغی فارم بن چکے ہیں جن کے تیار کردہ بچے خود اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک ہجوم بن گئے ایک قوم نہ بن سکے۔
ہم گالی کھاتے ہیں
ہم گولی کھاتے ہیں
ہم روندے جاتے ہیں
ہمیں کچلا جاتا ہے
ہم پھر بھی نہیں رکتے ۔ ہم بڑھتے جاتے ہیں
قلم اٹھائے ، کیمرے تھامے ، مائیک لہراتے
آپ ہمیں ہر جگہ پائیں گے ۔2014 میں ثنا مرزا کی تضحیک سے 2022 میں صدف کی شہادت ۔ مال روڈ پر پتھراؤسے جی ٹی روڈ تشدد تک ۔ ہم سہتے جائیں گے بتاتے جائیں گے۔ لیکن ہمارا یہ سفر رکے گا نہیں،انصاف یہ نہیں کہ کسی عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر سفید کاغذ پر لکھ طے کردیا جا ئے کہ بس حادثہ تھا ،ناانصافی یہ ہے کہ تم کہو
نہ مدعی ،نہ شہادت ،حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
نوٹ : لکھاری کے یہ ذاتی خیالات ہیں ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ