سانحہ نومئی پاکستان کی تاریخ کا ایسا سانحہ ہے جو کے شائد بھولتے ہوئے بھی 75 برس چاہیے ہونگے۔اس سانحہ کو ابھی پانچ ماہ ہوئے ہیں لیکن جو جماعت اور اس کے کارکن اس سانحہ میں ملوث تھے اب ان کی خواہش کے اس سانحہ کو سرے سے یاد ہی نہ کیا جائے ۔سب کو معاف کر کے اگے بڑھا جائے لیکن ریاست کے وجود پر لگائی گئی یہ کاری ضرب خود ریاست بھولنے کو تیار نہیں ۔اب تو وہ لوگ جو عرصے تک نو مئی واقعات کو ڈیفنڈ کرتے رہے اب اسے واقع کو لعنتی لوگوں کا کام قرار دے رہے ہیں ۔ تازہ تازہ چلے سے واپس آئے شیخ رشید آج لال حویلی کے کیس میں جب ہائیکورٹ پہنچے تو سانحہ نو مئی ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے ۔شیخ رشید کے بدلے بدلے خیالات سے ایک بات تو کا تو صاف اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ان افراد سے دوری اختیار کرنے والوں اور ان کی مزمت کرنے والوں کی راہیں ضرور آسان ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ شیخ رشید نے اآج روالپنڈی کے دونوں حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔پچھلے الیکشن میں شیخ رشید ایک حلقے سے خود جبکہ دوسرے حلقے سے ان کے بھتیجے پی ٹی آئی سے الیکشن میدان میں اترے تھے۔لیکن اب وہ دونون حلقوں سے خود میدان میں اتر رہے ہیں ۔یہ سہولت بھی شیخ صاحب کو شائد اس کیے بھی حاصل ہے کہ وہ ببانگ دہل خود کو گیٹ نمبر چار کا نمائندہ قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے شیخ رشید کا دونوں حلقوں سے خود اترنا اور بھتیجوں کو انتخابی سیاست سے سرنڈر کرانا بذات خو پی ٹی آئی کے لیے ایک بہت بڑا اشارہ ہے۔دوسر ی جانب زرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ نگران حکومت نے سینیٹ میں اسحاق ڈار کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے ۔ جبکہ رویت رہی ہے کہ نگران حکومت سینیٹ میں اکثریتی جماعت سے اپنا نمائندہ مقرر کرتی ہے، 2013 اور 2018 میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو قائد ایوان نامزد کیا گیا تھا۔پروگرام ’10تک ‘میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ ابھی تحریک انصاف کی 26، پیپلز پارٹی کی 21، ن لیگ کی 17 سیٹیں ہیں، لیکن قائد ایوان اسحاق ڈار ہیں ۔یہ مثال یا واقعہ بھی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ ہواوں کا رخ کس جانب ہے اور آئندہ حکومت بنانے کے لیے پلڑہ کس جماعت کا بھاری ہے۔ دوسری جانب گزشتہ کچھ دنوں سے ہونیوالی ہلچل بھی اس بات کی مظہر ہے کہ شائد دیگر پارٹیوں کو اگلی حکومت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب جو بھی کھٹی میٹھی سیاست اور جلسے جلوس ہو رہےہیں وہ اپوزیشن میں بھاری اکثریت لینے کے ہو رہےہیں ۔ایک دوسرے سے میل ملاقات اور جو ڑ توڑ ،لیول پلئنگ فیلڈ کے بیانات بھی صر ف اپوزیشن میں اکثریت حاصل کرنے اور سپیس پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حالیہ 16 ماہ کی رفاقت اور اس سے قبل دو دہائیوں کی رقابت عین الیکشن سے قبل عداوت میں بدل چکی ہے۔اور یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے الیکشن سے قبل دونون جماعتوں کا ایک دوسرے کیخلاف بیانیہ اسی قسم کا ہوتا ہے۔اسی سازشی سیاست اور ایک مخصوص پیٹرن سے اکتائے بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر اس وقت کے وزیر اعظم اور اپنے والد سے درخواست کی تھی کہ ہماری ایسی سیاست سے جان چھڑوئیں جو آپ اور نواز شریف تیس برس سے کرتے آئے ہیں اور چاہتے کہ مریم اور میں بھی ویسی ہی سیاست کریں۔
عمران خان الیکشن سے آؤٹ؟زرداری نے چال چل دی،ن لیگ کو جھٹکا
Oct 31, 2023 | 09:19:AM
Read more!