(افضل بلال) پاکستانیوں کو کرکٹ سے جذباتی وابستگی ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈکپ میں مسلسل شکستوں پر شائقین کرکٹ بڑے دکھی ہیں۔
پاکستانی قوم ایسی قوم ہے جو کرکٹ کو جنون کی حد تک چاہتی ہے، اپنی ٹیم کی ہر جیت پر خوش ہوتے ہیں اور ہار پر رنجیدہ، لیکن یہ پاکستانی عوام ہی کا بڑا پن اور سنجیدگی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہار برداشت کرنے کا دل گردہ رکھتے ہیں کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان ایسی ایسی ٹیموں سے اور طریقے سے بھی ہار سکتا ہے؟
1999 کا ورلڈکپ فائنل ہو یا 2007کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا بھارت کے ساتھ فائنل ہو یا 2007 کے ون ڈے ورلڈکپ میچ میں آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست ہو یا 2022 کے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا فائنل ہو یاپھر بھارت میں جاری ون ڈے انٹرنیشل ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی بالخصوص افغانستان سے شکست یہ وہ ناکامیاں ہیں کہ جن کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اور ہم چاہ کربھی انہیں پاکستان کی کرکٹ ہسٹری سے ڈیلیٹ نہیں کرسکتے۔
علاوہ ازیں میگا ایونٹس میں بے شمار سیمی فائنلز میں پاکستانی ٹیم کی شکست بھی برداشت کرنے کا سہرہ پاکستانیوں ہی کے سر ہے، ان سب ناکامیوں کے ساتھ کچھ کامیابیاں بھی پاکستانیوں کو دیکھنے کو ملی ہیں۔
لیکن جیت ہو یا ہار پاکستانی قوم نے اسے بڑے باوقار انداز میں قبول کیا ہے، کبھی بھی اخلاقیات سے نہیں گرے جیسا ہمارے پڑوسی بھارتی کرتے ہیں، یہ چند دن کا بخار ہے، اتر جائے گا تو سب نارمل ہوجائے گا لیکن ہمارا ردعمل ہمیشہ ہماری تاریخ کا حصہ بن کر ہمیں نادم کرتا رہے گا۔
بات کی جائے کرکٹ کو سیاسی کھیل بنانے کی تو پاکستان کے حکمرانوں نے جو حال ہمارے ہرشعبے کا کردیا ہے ایسے میں کرکٹ کیسے ان کے شر سے محفوظ رہ سکتی ہے؟ اس میں بھی تو سیاسی تقرریاں کی جارہی ہیں، کبھی کسی صحافی کو لا بٹھایا جاتا ہے تو کبھی کسی تاجر کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ اس میں اپنی من مرضی کرتا رہے، اس سنگین مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ ہم اپنےفیصلہ ساز ان کو بنائیں جو ملک و قوم اور کرکٹ کا سوچیں نا کہ اپنے ذاتی مفادات کا۔
موجودہ چیئرمین کرکٹ بورڈ چودھری ذکاء اشرف نے انتہائی گھٹیا قدم اٹھایا جس سے ان کی پیشہ وارانہ صلاحیت ظاہر ہوتی ہے، ابھی جاری ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر پریس ریلیز جاری کی، جس میں عندیہ دیا گیا کہ ٹیم کے واپس آتے ہی احتساب کا عمل شروع کیا جائے گا، چیئرمین پی سی بی کی پیشہ ورانہ صلاحییت کا اندازہ کریں ابھی ورلڈکپ جاری ہے اور انتہائی اہم تین میچز ابھی ٹیم نے کھیلنے ہیں تو ایسے میں یہ پریس ریلیز جاری کرکے ٹیم کا مورال مزید پست کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
ایسا صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ توپوں کا رخ ٹیم اور کپتان کی جانب کردیا جائے اور خود کو اور اپنے سہولت کاروں کو بچایا جاسکے حالانکہ عین ورلڈکپ سے قبل بنا الیکشن کے اس انتہائی اہم پوسٹ پر براجمان ہونا ہی ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دوسری جانب ہمارے میڈیا کا بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ سامنے آرہا ہے، صرف ریٹنگ کے چکر میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑادی گئیں، کپتان بابر اعظم کی ایک مبینہ چیٹ کا سکرین شاٹ یوں پبلک کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا، اس پر ڈھٹائی یہ کہ اظہر علی جب اس جانب متوجہ کریں تو خود کو بڑا صحافی کہنے والے چھوٹی حرکت پر بجائے متوجہ ہونے کے الٹا کہیں میں صحافی ہوں مجھے تو یہی کرنا ہے، حضور صحافت میں بھی اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے آپ ذاتی عناد کے پیش نظر ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔
اگر بات کی جائے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی تو ان کی اس ورلڈکپ میں بنتی درگت بھی سب کے سامنے ہے، لیکن ان کے بورڈ یا ملک کی جانب سے تو ایسا کچھ نہیں دیکھنے اور سننے کو ملا، ہمیں بھی میچورٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ بعد میں جگ ہنسائی سے بچا جاسکے۔
انگلینڈ کی صورتحال دیکھ کر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، کیا انگلینڈ کی ٹیم میں یاری دوستی کی بنا پر کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا؟ کیا ان کے کپتان من پسند کھلاڑیوں کو لے کر آئے؟ کیا ان کی ٹیم بھی سفارش کے ساتھ منتخب کی گئی؟ کیا ان کے بورڈ نے کسی قسم کی پریس ریلیز جاری کی؟ کیا ان کے بورڈ نے یا ان کی عوام نے یا پھر ان کے میڈیا نے کھلاڑیوں کی ذاتیات پر انگلی اٹھائیَ؟ کیا ان کے کھلاڑیوں کی تزلیل کی گئی؟ دفاعی چیمپئن ہونے کے باوجود پوائنٹس ٹیبل پر آخری پوزیشن پر ہونا ان کے لئے گالی بنا؟ کیا ان کے کھلاڑیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگایا گیا؟
ان سب کا جواب صرف ایک ہے نہیں اور صرف نہیں، کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ وہ ایک مہذب قوم ہیں اور ہر حال میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کو عزت دینا جانتے ہیں، ہار جیت کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔