(24 نیوز)26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حکومت کے ساتھ ساتھ جے یو آئی ف بھی صفائیاں دے رہی ہے ۔مولانا فضل الرحمان جنہوں نے 26 ویں آئینی ترامیم میں حکومت کا ساتھ دینے سے پہلے انکار پھر بعد میں اقرار کیا تھا ۔جس کے بعد 26 ویں آئینی ترامیم کو منظور کروالیا گیا تھا۔اب وہی مولانا یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے آٹھ ووٹ حکومت کو نہیں دیتے تو حکومت کے پاس پلان بی تیار تھا ۔اور وہ پلان بی یہ تھا کہ حکومت نے اپوزیشن اراکین کے 11 ووٹ خرید لئے تھے۔اِس لئے اگر ہم آئینی ترامیم کی حمایت نہیں کرتے تو بہت گندا مسودہ آتا۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کی بات کو دیکھا جائے تو وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے دباؤ میں آکر آئینی ترامیم کا ساتھ دیا۔کیونکہ مولانا کے بقول اگر حکومت کا ساتھ نہ دیا جاتا تو وہ پرانا مسودہ لے آتی ۔جو خوفناک ہوتا ۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت تو 27 ویں ترمیم لانے کی بھی تیاریاں کر رہی ہے ۔اور ایسے میں جوڑ توڑ کے ذریعے وہ پھر سے اپنے نمبرز پورے کرلے گی کیونکہ آرٹیکل 63 اے کے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو کالعدم قراردے دیا ہے۔ جس کے بعد اب فلور کراسنگ کرنا مشکل کام نہیں رہا۔تو سوال یہ ہے کہ کیا مولانا پھر سے حکومت کے دباؤ میں آجائیں گے اور حکومت کا ساتھ دیں گے یا پھر وہ کوئی اور لائحہ عمل اپنائیں گے ۔بظاہر اب کی بار مولانا نے حکومت کو خبردار کردیا ہے کہ اگر حکومت نے 27 ویں ترمیم لانے کی کوشش کی تو اُس کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ممکن ہے مولانا حکومت کیخلاف احتجاج کی کال دے دیں ۔اور شیخ رشید بھی اِسی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔شیخ رشید کہتے ہیں کہ 27 ویں ترمیم آئی تو مولانا احتجاج کی کال دیں گے ۔
اب جے یو آئی ف فی الحال تو 27 ویں ترامیم پر بھرپور مزاحمت دکھا رہی ہے ۔اور ممکن ہے مولانا حکومت کیخلاف سڑکوں پر بھی نکل آئے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح مولانا ڈھکے چھپے الفاظ میں 26 ویں آئینی ترامیم پر دباؤ پڑنے کا اعتراف کر رہے ہیں ۔یہ اعتراف ہمارے نظام پر سوال اُٹھا رہا ہے ۔اگر اپوزیشن کے بقول آئینی ترامیم عدلیہ کی آذادی کو دبانے کیلئے کی گئی ۔اگر اپوزیشن کے مطابق آئینی ترامیم کا مقصد اس کو دیوار سے لگانا ہے تو پھر عدلیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن معاملات کو دیکھے ۔اور اب نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی نظام کو حکومت کے تابع ہونے کے تاثر کو زائل کریں ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر شاید فیصلے عدالتوں میں ہونے کی بجائے سڑکوں پر ہونا شروع ہوجائیں گے ۔اِس وقت حکومت پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ اپنے وجود کو بچانے کیلئے ترمیم پر ترمیم لانا چاہتی ہے ۔اور یہ تاثر اِس لئے اُبھر رہا ہے کیونکہ اہم کیسز سپریم کورٹ میں سنے جانے والے ہیں ۔اور اِن کیسز کا براہ راست تعلق حکومت کی ساکھ سے جڑا ہو اہے ۔ اِن مقدمات میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ،8 فروری کے الیکشن کا کیس،26 ویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر پیٹیشن اور آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیسز شامل ہیں ۔اور اِن کیسز کا اگر فیصلہ حکومت کیخلاف آتا ہے تو حکومت کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔پھرمخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے کی صورت میں ایک تو پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم ہوجائے گی ۔ ۔پھر اِسی طرح 26 ویں آئینی ترامیم کو سپریم کورٹ ختم کردیتی ہے تو ساری 26 ویں آئینی ترامیم پر پانی پھر جائے گا۔اور پھر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جائیں گے ۔پھر اِسی طرح آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ اپنے پرانے فیصلے کو کالعدم قرار دیتی ہے تو فلور کراسنگ کا سلسلہ پھر سے رک جائے گا۔اب یہ تمام باتیں کسی صورت حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ۔اِس لئے حکومت پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ اپنی ساکھ کو بچانے کیلئے آئینی بینچ اور سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اگر ہماری مداخلت کے نتیجے میں آئینی بینچز بننے ہیں اور ہر معاملات میں ہم نے ہی مداخلت کرنی ہے تو پھر سپریم کورٹ نہیں چل پائے گی۔کامران مرتضیٰ سے صحافی نے سوال پوچھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ٹاپ تھری ججز میں سے آئینی بینچ کا کوئی سربراہ نہ ہو۔
اب حکومت کے سیاسی رویے پر اپوزشن نالاں نظر آرہی ہے ۔حکومت کی نیت پر سوال اُٹھ رہے ہیں ۔خاص طور پر آئینی بینچ میں اگر حکومت ٹاپ تھری ججز کو شامل نہیں کرنا چاہتی تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اُن ججز کو بینچ کا حصہ بنانا چاہتی ہے جنہوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کی مخالفت میں فیصلہ دیا۔اب یہی وجہ ہے کہ یہ چہ مہ گوئیاں ہورہی ہے کہ 5 رکنی آئینی بینچ بنے گا جس کی سربراہی ممکنہ طور پر جسٹس امین الدین کے سپرد ہوگی ۔ایسے میں اپوزیشن یہ دعوی کر رہی ہے کہ حکومت عدلیہ میں ایسی مداخلت کرکے اِس کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی یہاں کیسا کردار ادا کرتے ہیں ۔اُنہوں نے آغاز میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرکے حکومت کو اضح پیغام تو دے دیا ہے جس کے بعد اب حکومت اُن سے خوش نظر نہیں آرہی اور شاید اِسی لئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کرنے جارہی ہے ۔ جبکہ حکومت آئینی ترامیم پر اپنی صفائیاں پیش کر رہی ہے۔رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا عذاب اس ملک اور جسٹس منصور علی شاہ کو لے ڈوبا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کسی شخص کی حمایت کرے یا مخالفت، دونوں کا نتیجہ اس شخص کے خلاف جاتا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس نہ بننے کی ذمہ داری بھی پی ٹی آئی پر عائد کرکے خود بری الذمہ ہورہی ہے ۔اب اگر پی ٹی آئی نے جسٹس منصور علی شاہ کی تعریف کی ہے تو پھر حکومت بھی کئی مواقعوں پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کرتی نظرآئی۔اور آج ایک افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا.جہاں لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور پاکستانی ہائی کمیشن کی گاڑی پر حملے کا واقعہ رونما ہوا۔میڈیا رپورٹس کےمطابق قاضی فائز عیسیٰ، مڈل ٹیمپل میں بنچز بنانے کی تقریب میں شرکت کیلئے آئے تھے ۔اُس دوران پی ٹی آئی کارکنوں نےقاضی فائز عیسیٰ ٰ کی گاڑی روکنے کی کوشش کی ،کارکنوں نے پاکستانی سفارتخانے کی گاڑی کے شیشے توڑنے کی کوشش بھی کی،پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والے افراد قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی کو دیکھ کر برا بھلا کہتے ہوئے ساتھ دوڑتے رہے،اب اس واقعے کی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے نادرا کو حملہ آوروں کی شناخت کے لئے فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے ۔وزیر داخلہ نے حکم دیا ہے کہ فوٹیجز کے ذریعے حملہ آوروں کی نشاندہی کی جائے۔اورحملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے۔
محسن نقوی نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ حملہ آوروں کیخلاف پاکستان میں ایف آئی آر درج کرکے مزید کارروائی کی جائے اِس کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں کے شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کئے جائیں۔ جنہوں نے حملہ کیا ہے ان کی شہریت منسوخ کرنے کےلئے فوری کارروائی کی جائے ۔ اورشہریت منسوخی کا کیس منظوری کے لئے کابینہ بھیجا جائے ۔دوسری جانب ذرائع کے مطابق پاکستان ہائی کمیشن نے حملہ کرنے والوں پرمقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ میں 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائےگا اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کو اندراج مقدمہ کی درخواست سفارتی اختیارات کے ذریعے دی جائے گی۔سفارتی ذرائع نے بتایا ہےکہ قاضی فائزعیسیٰ پر حملے کے دوران پاکستان ہائی کمیشن کی گاڑی کوبھی نقصان پہنچا۔اب یہ الزام لگ رہا ہے کہ اِس کے پیچھے پی ٹی آئی کے لوگ ملوث ہیں ۔بہرحال یہ افسوس ناک واقعہ ہے جس کو کسی صورت پیش نہیں آنا چاہئے تھا۔