بدروحوں کاتہوار ہیلووین:جب گلی گلی خوف کی وادی سجتی ہے

اندھیرا چھاتے ہی بچے اور بڑے خوفناک ملبوسات پہن کر دوسروں کو ڈرانے کیلئے نکل پڑتے ہیں

Oct 31, 2024 | 12:51:PM
بدروحوں کاتہوار ہیلووین:جب گلی گلی خوف کی وادی سجتی ہے
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) آج 31 اکتوبر کو دنیا بھر میں بدروحوں کاتہوارہیلووین بھرپورانداز سے منایا جارہاہے۔

ہیلووین کا تہوار بہت سے مغربی اور مشرقی ممالک میں 31اکتوبر کو منایا جاتا ہے، اِس رات اندھیرا چھانے پر بچے اور بڑے خوف ناک قسم کے ملبوسات پہن کردوسروں کو ڈرانے کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں،ننھے بچے بھوت بن کر آس پاس کے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں اور انہیں یا تو کھانے کیلئے ٹافیاں دینا ضروری ہوتا ہے یا دوسری صورت میں ان کی شیطانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لوگ اس تہوار کے لئے خاص طور پر بچوں کے کھانے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں خرید کرگھروں میں لاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی بچہ دروازے پر دستک دیتا ہے تو اُسے یہ چیزیں دینے کے لئے دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔

نوجوان لڑکے لڑکیاں اس رات خوف ناک روپ دھار کر پارٹیاں منعقد کرتے ہیں اور رات بھر لطف اندوز ہوتے ہیں،اس  روز لوگ ڈراؤنے لباس اور ماسک پہن کر دوسروں کو خوفزدہ کرنے نکلتے ہیں، لوگ اپنے گھروں کو بھی بھوت بنگلے کی شکل دیتے ہیں، انسانی ڈھانچوں کو گھروں کے سامنے لٹکاتے ہیں، خوف ناک آوازوں والے میوزک سسٹم کا اہتمام کرتے ہیں اور خاص طور پر تراشے ہوئے کدو اور ان کے اندر روشنی جلا کر اس تہوار کو مزید جاندار بناتے ہیں۔

 اس تہوارکاآغازکیسےہوا؟اس حوالے سے مختلف روایتیں ہیں،مؤرخین کے مطابق 2000 سال پہلے یورپی ممالک میں ایک ساوین نامی تہوار منایا جاتا تھا جس کا مقصد گرمیوں کے اختتام ، فصل کی کٹائی اور سردیوں کی تیاری کے موقع پر جشن منعقد کرنا ہوتا تھا،اُس وقت کے لوگوں کا ماننا تھا کہ 31اکتوبر کی رات کو زندہ اور مردہ لوگوں کی دنیا کے درمیان موجود حد ختم ہوجاتی ہے اور مردہ لوگوں کی روحیں زندہ لوگوں کی دنیا میں آ جاتی ہیں، اپنے مرحوم رشتےداروں کی روح کو سکون پہنچانے کے لئے یہ لوگ رات کے وقت لکڑیوں کا ایک الائو جلا کر اس کے گرد اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور اِس آگ کے گرد فصلیں جلایا کرتے تھے اور جانوروں کی قربانی بھی دیتے تھے،اس موقع پر ان کا لباس بھی بہت عجیب و غریب ہوا کرتا تھا جو عمومی طور پر کسی مرے ہوئے جانور کے سر اور کھال پر مشتمل ہوتا تھا۔

 ہیلووین کے آغاز کے حوالے سے سب سے اہم دعویٰ آئرلینڈ کے علاقے کاؤنٹی میتھ کے لوگ کرتے ہیں،یہاں دا ہِل آف وارڈ نامی عجیب مقام  بھی واقع ہے،اس حوالے سے کہاجاتاہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ساؤن کے جشن کی شروعات ہوئی تھی،یہ وہ وقت ہوتاہے جب فصلوں کی کٹائی مکمل ہو رہی ہوتی ہے اور خزاں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہوتا ہے،ساؤن کے جشن کے دوران لوگ آگ جلاتے اورعالم ارواح سے آنے والی روحوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ 

یونیورسٹی آف ڈبلن سے منسلک ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر سٹیو ڈیوس کاکہناہے کہ آئرلینڈ میں ایسے چند ہی مقامات ہیں جن کا موازنہ ہم ہِل آف وارڈ سے کر سکتے ہیں، یہ ایک جادوئی اور پُراسرار جگہ ہے،انہیں اس مقام پر ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آگ جلائی جاتی تھی، اس جگہ کو آگ سے منسوب کیا جاتا ہے،قرونِ وسطیٰ میں لکھی گئی تحریروں سے بھی یہاں آگ کا سالانہ تہوار منعقد ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔

ایک اورروایت کے مطابق آئرلینڈ میں قحط پڑنے کی وجہ سے انیسویں صدی میں آئرش پناہ گزین دنیا کے دیگر ممالک منتقل ہونا شروع ہوئے اور یہیں کے لوگ ہیلووین کا تہوار ساتھ لائے تھے،جب یہ روایات امریکا پہنچیں تو وہاں انہیں جدید شکل دے دی گئی، اس سے قبل آئرلینڈ میں کدو کو کاٹ کر خوفناک چہرے نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ پہلے ان کی جگہ شلجم کا استعمال ہوتا تھا تاہم بعد میں شلجم کی جگہ کدونے لے لی۔

 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  اس تہوار کا نام ہیلووین پڑ گیا اور لوگوں نے جانور کی کھال اور سر پر مبنی لباس کو مختلف قسم کے عجیب و غریب ملبوسات سے بدل دیا، آج ہیلووین کے موقع پر خوفناک سے خوفناک حلیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔