اسلام آباد میں سموگ ہے یا فوگ؟

تحریر :روزینہ علی

Oct 31, 2024 | 18:21:PM

اکتوبر گزر گیا لیکن جاتے جاتے ہر چیز کو دھندلا گیا، پنجاب میں سموگ نے لاہور سمیت کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیا، انتہائی شدید سردی سے قبل ہی لاہور اور دیگر شہروں کے باسی دھوپ دیکھنے سے محروم ہیں، فضائی آلودگی اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے، ہر نیوز بلیٹن میں پنجاب سے بس سموگ کی خبریں سنتے رہتے ہیں لیکن حیرانگی اس وقت ہوئی جب اسلام آباد میں ایک دن ڈھلتی شام کے سائے میں ہلکی سی دھند محسوس کی، میں نے سوچا میرا وہم ہے لیکن پھر دو سے تین دن بعد ہی جب 17 سے 18 گھنٹے کی 26ویں آئینی ترمیم کی انتہائی طویل ڈیوٹی کی اور 21 اکتوبر پیر کی صبح  6 بجے باہر نکلی تو صبح سویرے کا منظر بھی انتہائی دلکش تھا، ہلکی ہلکی دھند میں لپٹا اسلام آباد دلکشی کی حسین داستان لگ رہا تھا، صبح سویرے کے مناظر شاید انتہائی طویل عرصے بعد میں دیکھ رہی تھی تو زیادہ محظوظ ہو رہی تھی لیکن بہرحال صبح تھی بہت ہی خوبصورت، اس صبح میں بھی ہلکی ہلکی سی دھند تھی مگر دن کے اوقات میں جب آپ ایکسپریس وے سے آئیں اسلام آباد کی طرف تو وہ خوبصورتی جیسے کہیں چھپ جاتی ہے.

 مارگلہ کی سرسبز پہاڑیاں گرد و غبار کے دھوئیں فضائی آلودگی میں چھپ جاتی ہیں، فضائی آلودگی کا حملہ اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ دلکش و دلفریب نظارے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، دماغ سن ہونے لگتا ہے، سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ایسا لگتا ہے پھیپھڑوں پر جیسے کسی نے وزن رکھ دیا ہو، ناک بھی اپنا ساز بجانا شروع کر دیتی ہے اور تشویش کی لہر ہوتی ہے کہ آخر کیا ہے؟اس آخر کیا ہے کا جواب ڈھونڈنے کے لیے میں نے مختلف اداروں سے رابطہ کرنے کی ٹھانی، یہ بادل ہیں یا سموگ؟ اس کا جواب لینے کے لیے میں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے دفتر پہنچی جہاں ڈائریکٹر انٹریکٹر نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی اینڈ لیبارٹریز زیغم عباس نے 24 نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد میں ان دنوں نظر آنے والی سموگ نہیں فوگ ہے، یہ دھند کی ایک قسم ہے، یہ ایک موسمیاتی حالت ہے جس میں ہوا میں چھوٹے پانی کے قطروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور یہ قطرے زمین کی سطح کے قریب موجود ہوتے ہیں اس کی وجہ سے نظر کی حد بہت کم ہو جاتی ہے، جس سے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

فوگ عام طور پر اس وقت بنتی ہے جب ہوا کا درجہ حرارت کم ہو اور زمین کی سطح پر نمی زیادہ ہو, فوگ زیادہ تر سردیوں کے موسم میں بنتی ہے کیونکہ سرد ہوا میں پانی کے قطرے زیادہ دیر تک برقرار رہ سکتے ہیں جبکہ سموگ کے مختلف پیرا میٹرز ہیں، سموگ دراصل دو الفاظ "اسموک" (smoke) یعنی دھواں اور "فوگ" (fog) یعنی کہر کا مجموعہ ہے, یہ ایک فضائی آلودگی کی حالت ہے جو دھویں، مٹی، کارخانوں سے نکلنے والی گیسوں، گاڑیوں کے ایندھن کے اخراج، اور دیگر آلودہ عناصر سے بنتی ہے,سموگ ہوا میں موجود مضر صحت گیسوں، جیسے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور اوزون کے ملاپ سے پیدا ہوتی ہے, زیغم عباس نے یہ بھی کہا کہ سموگ کا اثر انسانوں کی صحت پر بھی بہت برا ہوتا ہے یہ سانس کی بیماریوں، آنکھوں میں جلن، اور دل کے امراض میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے, سموگ زیادہ تر شہروں میں سردیوں کے موسم میں زیادہ شدید ہوتی ہے کیونکہ اس موسم میں ہوا زیادہ کثیف ہو جاتی ہے اور آلودگی نیچے سطح پر رک جاتی ہے۔

یہ باتیں سننے کے بعد سموگ اور فوگ کا فرق سننے کے بعد بھی میری تشویش برقرار تھی کیونکہ مختلف تحقیقاتی ادارے فضائی آلودگی کا جو انڈیکس بتا رہے تھے وہ انتہائی خطرناک تھا تاہم جو انڈیکس انتہائی غیر صحت مند فضاء کا نجی ادارے بتا رہے تھے کہ پی ایم 2.5 سے 138 ہوچکا ہے اس کی تصدیق پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کرنے سے گریزاں تھا,کیا ہے یہ پی ایم(PM 2.5) زیغم عباس نے بتایا یعنی فضا میں موجود باریک ذرات کی پیمائش جن کا قطر 2.5 مائیکرون یا اس سے کم ہوتا ہے, یہ ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ آسانی سے انسانی پھیپھڑوں میں داخل ہو سکتے ہیں اور صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں, ان ذرات کا اخراج عام طور پر گاڑیوں، فیکٹریوں، کوئلہ جلانے، کھلی آگ، اور دیگر آلودہ ذرائع سے ہوتا ہے,  تو ماہرین کے مطابق جب پی ایم 2.5 کی سطح 138 ہو تو یہ "غیر صحت مند" کیٹیگری میں آتی ہے۔اب اسلام آباد میں فضائی آلودگی میں "پی ایم 2.5" سے اسکا 100 سے بھی تھاوز کرنا تشویشناک تو ہے اور  یہ سطح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فضا میں باریک ذرات کی مقدار بہت زیادہ ہے، ایک طرف پاکستان انوائرمینٹل نے متعدد بار سوال پر جواب یہی دہرایا کہ یہ سموگ نہیں فوگ ہے! 

بہرحال یہ فضائی آلودگی سموگ جتنی ہی خطرناک نظر آ رہی ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں جلن، کا مسئلہ ہر دوسرے شہری کو ہو رہا ہے، متعدد کولیگز نے گھر کے افراد نے یہ شکایت کی اور خود میری آنکھیں اس فضاء میں جلتی ہیں، ماہرین کا ڈاکٹرز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ فضائی آلودگی پھیپھڑوں اور دل کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، خاص طور پر بچوں، بزرگوں، اور پہلے سے سانس کی بیماریوں کے شکار افراد کے لیے۔ اب ایئر کوالٹی انڈیکس ہے کیا؟ کتنا انڈیکس بہترین فضاء کی نشاندہی کرتا ہے؟، ڈائریکٹر زیغم عباس نے کہا کہ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کے مطابق:
- 0-50: اچھا (Good) 
- 51-100: معتدل (Moderate)
- 101-150: حساس افراد کے لیے غیر صحت مند  151-200: غیر صحت مند 
- 201-300: بہت غیر صحت مند 
- 301 سے اوپر: خطرناک 

لہذا، PM2.5 کا 138 ہونا حساس افراد کے لیے نقصان دہ ہے، اور انہیں زیادہ وقت باہر گزارنے سے گریز کرنا چاہیے,ڈاکٹر زیغم عباس نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ساتگ مل کر گاڑیوں کو مانیٹر کیا جا رہا اور جلد ہی گاڑیوں کے لیے گرین اسٹیکر متعارف کرائے جا رہے ہیں، یعنی جن گاڑیوں پر گرین اسٹیکر ہوگا صرف انہی گاڑیوں کو روڈ پر چلنے کی اجازت ہوگی، گرین کارڈ ایک طرح کا یہ لائسنس ہوگا کہ یہ گاڑی ماحول کے لیے خطرہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ طے کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ وفاق میں عملدرآمد کے بعد یہ صوبوں کو بھی تجویز کریں گے، زیغم عباس نے کہا کہ 50 فیصد کی گاڑیاں مانیٹر کی گئیں جن میں سے 40 فیصد کو اسٹینڈرڈ سے تجاوز کرنے پر جرمانہ کیا گیا، ڈاکٹر زیغم نے کہا کہ آجکل اسلام آباد میں نظر آنے والی دھند فضائی آلودگی کی وجہ اسلام آباد دو نئے بننے والے ایونیو کی گرد و غبار بھی ہے، انہوں نے کہا سموک یعنی دھواں اور فوگ مل کے سموگ بنتے ہیں جبکہ یہاں الگ صورتحال ہے.

انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر زیغم عباس سے جب اصرار کیا کہ دیگر ادارے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ جاری کرتے ہیں اپ کیوں نہیں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ دیتے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ہفتے بھر کی رپورٹ جاری کرتے ہیں، زیغم عباس نے کہا کہ نومبر، دسمبر، جنوری، فروری ان چار مہینوں میں ہم ڈی سی اسلام آباد اور کمشنر سے کہتے ہیں کہ سیکشن 144 کا نفاذ کریں تاکہ کچرا نہ جلے، گاڑیاں دھواں چھوڑنے والی کو کنٹرول کیا جا سکے، زیغم عباس نے مزید کہا کہ ہماری ٹیمیں ایکٹیویٹ ہیں مانیٹرنگ کر رہے ہیں

فضائی الودگی سے صحت کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟

فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ اثر پھیپھڑوں پر ہوتا، بہرحال میں اپنے سوالات کے جوابات لینے کے لیے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جعفر کے پاس گئی انہوں نے 24 نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سموگ کا پھیپھڑوں سے بڑا گہرا تعلق ہے، یہ سب نمی کی وجہ سے ہے اگر نمی برقرار رہے تو جراثیم کے بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں،جراثیم سانس کی نالی کے ذریعے انفیکشن کا باعث بنتے ہیں، ڈاکٹر جعفر نے کہا کہ سانس کی نالی میں کافی اقسام کے غدود ہوتے ہیں وہ بہت متاثر ہوتے ہیں، الرجی کے مریض خاص طور پر جن کو دمے کا مرض لاحق ہو تو انکے دمے کا مرض بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے، دمہ، فلو نمونیہ ان میں اضافہ ہوتا ہے

کیا دل کے مریضوں کی صحت پر بھی سموگ کے فضائی آلودگی کے اثرات ہوتے ہیں؟

اجکل ہر دوسرے گھر میں دل کا مریض ضرور ہے اسی خدشے کے پیشے نطر جاننا چاہا تو ڈاکٹر جعفر نے کہا جی ہاں بالکل متاثر ہوتے ہیں اور خاص طور پر وہ مریض جو شوگر اور دل کے امراض کا شکار ہیں اور ایسی دیگر بیماریاں جو ہیں قوت مدافعت کو کم کرتی ہیں، ڈاکٹر جعفر نے یہ بھی کہا کہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں مسئلہ ہو سکتا ہے انہیں خاصی احتیاط برتنی چاہیے، تاہم لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں یہ سموگ کیوں ہے؟ ڈاکٹر جعفر نے بھی اعتراف کیا کہ یہ سب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے، انہوں نے کہا کہ جس طرح گلوبل وارمنگ بڑھتی جا رہی ہے فضائی آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، ڈاکٹر جعفر نے کہا کہ ان دنوں 60 سے 70 فیصد مریض فضائی آلودگی سے متاثر آتے ہیں، زیادہ تر مریض نمونیہ، فلو اور دمہ کے مرض کا شکار ہوتے ہیں 

فضائی آلودگی یا سموگ سے کون سی عمر یا جنس سب سے زیادہ متاثر ہے؟

پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جعفر نے کہا کہ کچھ بچے اور 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں تاہم یہ کہنا کہ صرف مرد متاثر ہیں یا صرف خواتین نہیں یہ تاثر درست نہیں دونوں ہی متاثر ہیں تاہم بڑی عمر کے افراد کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے 

کرنا کیا چاہیے؟ موسم سے پہلے کی کونسی احتیاطی تدابیر ہیں؟

اس بارے ڈاکٹر جعفر نے تجویز کیا کہ فلو شارٹ ویکسین ( fku shirt vaccine) ستمبر سے اکتوبر میں لگانے کا مشورہ دیتے ہیں، تاہم انہوں نے ہدایات کیں کہ جلد بیمار ہونے والے افراد کو چاہیے کہ رش والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں، گھر میں رہیں، گرم کپڑے پہنیں، گھر کو گرم رکھیں نمی نہ ہونے دیں، ٹھنڈے پانی سے مت نہائیں، ٹھنڈے مشروبات کا استعمال ترک کر دیں، ٹھنڈی چیزوں سے اجتناب کریں 

ماسک کونسا استعمال کیا جائے؟؟ 

ڈاکٹر جعفر نے کہا کہ کوئی بھی عام ماسک استعمال کر سکتے ہیں خاص طور پر زیادہ متاثر افراد ماسک لازمی استعمال کریں، عام سرجیکل ماسک استعمال کر سکتے ہیں، احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، ڈاکٹر جعفر نے سموگ سے متاثرہ شہروں میں موٹرسائیکل سواروں کو خصوصی طور پر ماسک کے استعمال کا مشورہ دیا اور مزید کہا کہ آنکھوں میں زیادہ جلن ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں اور غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں 

فضائی آلودگی یا سموگ میں کمی صرف بارش سے ہی ممکن ہے، بارش آخر کب ہوگی یہ سوال مجھ سے چلتے پھرتے سینکڑوں لوگ پوچھتے ہیں موسم کب بدلے گا؟ بادل کب برسیں گے؟

اس کے لیے میں محکمہ موسمیات گئی، ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ظہیر احمد بابر نے 24 نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بادلوں کی کنڈیشنز کی وجہ سے ماحول میں تبدیلی ہے، فی الحال تو بارش کے کوئی امکانات نہیں اور آئندہ چند روز تک موسم کی یہ صورتحال برقرار رہے گی، ظہیر احمد بابر نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فضاء میں موجود زہریلے مادے جب ختم نہیں ہوتے تو سموگ کی صورتحال ہوتی ہے، جب تک ایک اچھا بارش کا سلسلہ نہ ہو سموگ یا فضائی آلودگی کم نہیں ہوتی، میدانی علاقوں میں گزشتہ کچھ عرصے سے موسمی صورتحال ٹھیک ہے بہتر ہے بارشیں نہیں ہوئیں جس کے باعث آلودگی کے ذرات ختم نہیں ہوئے


ظہیر احمد بابر نے کہا کہ سموگ کی یہ صورتحال تو برقرار رہنے کا امکان ہے خاص طور پر اہم شہروں میں نومبر کے وسط تک یہ صورتحال رہے گی، انہوں نے کہا کہ جب تک کوئی زور آور مغربی سلسلہ بارش کا نہیں آتا فضائی آلودگی یا سموگ میں کمی ممکن نہیں 

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات ظہیر احمد بابر نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک حقیقت ہیں، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت بڑھ رہے ہیں، آئندہ آنے والے سالوں میں سوچنا پڑے گا کہ ہم اپنے ایمیشنز کو کیسے کم کر سکتے ہیں اور اپنے ماحول کو اپنی سوسائٹی کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں 

سموگ یا فوگ بہرحال احتیاط جہاں ضروری ہے وہیں اقدامات بھی ضروری ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید خطرات مسلسل دستک دے رہے ہیں تو اگر اقدامات اب نہیں کریں گے تو پھر کب؟؟؟؟ ؟

مزیدخبریں