عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کی قیادت میں تحریک انصاف کے ہزاروں حامیوں کا جلوس پیر کی سہ پہر اسلام آباد پہنچا جہاں وہ اپنے قید رہنما عمران خان کی رہائی تک دھرنا دینا چاہتے تھے تاہم پولیس نے منگل کی رات چند گھنٹوں کے اندر ہجوم کو منتشر کر دیا، اس کشمکش کے دوران رینجر کے چار اہلکاروں سمیت دو سویلین کی ہلاکتیں رپوٹ ہوئی ہیں ۔ تشدد پہ آمادہ ہجوم کے خلاف سرکاری فورسیسز کا آدھی رات سے پہلے شروع ہونے والا آپریشن ایسی مربوط حکمت عملی پہ مبنی تھا جس میں حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کے علاوہ پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی بپھرے ہوئے کارکنوں کے تشدد سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ دارالحکومت کے ریڈ زون سے کم و بیش ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ڈی چوک ، جہاں میڈیا ہاوسسز سمیت بہت سے سرکاری دفاتر واقع ہیں ، وہاں سے بشریٰ بی بی اور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے آپریشن شروع ہوتے ہی رینجر کی سیکیورٹی میں اندھیرے کی آڑ لیکر شمال مغربی صوبہ کی طرف پسپائی اختیار کی تو اس کے بعد پولیس نے محض آنسو گیس کا استعمال کرکے چند لمحموں کے اندر ڈی چوک کو کلیئر کرا لیا ۔
خیبر پختون خوا سے اسلام آباد منتقل ہونے والے پی ٹی آئی کے قافلے حکومت سے ، 8 فروری کے انتخابات میں انکے چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی ، عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پارلیمنٹ کو تقویت پہچانے والی 26 ویں آئینی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ لیکر نکلے تھے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبہ کے سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود پی ٹی آئی قیادت بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کو سڑکوں پہ لانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ، اس لئے چوتھی کوشش کے باوجود پارٹی اپنے مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ منوا سکی بلکہ اس غیر معمولی ناکامی نے پارٹی کی صفوں میں انتشار کے علاوہ قیادت کو اس قدر مضمحل کر دیا کہ ان کے لئے اگلی کوشش کرنا ممکن نہیں رہا یعنی ڈی چوک پہ غیر معینہ مدت کے دھرنا کی حتمی کال کی ناکامی پی ٹی آئی کا واٹرلو ثابت ہوئی چنانچہ اس بارے میں بہت کم وضاحت دی گئی کہ تنظیم دوبارہ کیسے منظم ہوگی کیونکہ جو احتجاج ان کی حتمی کال کے طور پر لانچ کیا گیا تھا ، اس کا یوں آسانی کے ساتھ ناکام ہو جانا پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کے لئے بڑا دھچکا ہے ۔ حسب روایت ابتداء میں پی ٹی آئی نے فورسیسز کے کریک ڈاون کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر کارکنوں کی ہلاکتوں کے متضاد دعوے کئے جبکہ حکومت نے مہلک گولہ بارود استعمال کرنے کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ مظاہرین میں سے کوئی ایک بھی جاں بحق نہیں ہوا ۔ پی ٹی آئی تاحال حکومتی دعووں کو جھٹلانے کے لئے کارکنوں کی ہلاکتوں بارے ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکی ۔
ضرورپڑھیں:ہائبرڈ فارمولا نہیں چاہیے ,نیا فارمولابرابر ی کی بنیاد پر بنے گا:محسن نقوی
حکام نے اطلاع دی ہے کہ پیر کے روز پی ٹی آئی کے قافلے سے دو وی ایٹ گاڑیوں کے ذریعے تین رینجرز اہلکاروں کو کچل کر مارنے کے علاوہ پارٹی کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہوگیا ۔ یہ پی ٹی آئی کا چار ماہ میں چوتھا احتجاج تھا جس میں گزشتہ ریلیوں سمیت اکتوبر میں ایک جلسہ بھی شامل ہے جو وقت سے پہلے ختم ہو گیا تھا ۔ بدھ کی سہ پہر علی امین گنڈا پور نے خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاون کی مذمت کرنے کے علاوہ اپنے مطالبات پر اصرار جاری رکھنے کا اشارہ دیا لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ اس حتمی کال کی ناکامی نے اندر سے تارپیڈو کرکے پارٹی کی صفوں میں جو انتشار برپا کیا اس کی لہریں انہیں دیر تک سنبھلنے نہیں دیں گی ۔ پی ٹی آئی نے اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پہ نفرت انگیز بیانیہ بنانے کے علاوہ پُرتشدد احتجاج کی روش اختیار کر رکھی ہے ، جس سے اس کی عوامی مقبولیت تو بڑھتی رہی لیکن پارٹی قیادت کرپشن و بد عنوانی کے مقدمات میں الجھ کر بتدریج طاقت کے مراکز سے دور ہوتی گئی ۔ بانی چیئرمین توشہ خانہ کیس میں سزا سمیت درجنوں فوجداری مقدمات کے تحت قید کاٹ کر رہے ہیں خاص طور پر 190 ملین پونڈ کے القادر ٹرسٹ سکنڈل جیسے سنجیدہ مقدمہ میں انہیں عدالت کی طرف سے لمبی سزا سنائے جانے کا قوی امکان ہے ۔ بشریٰ بی بی کو بھی اکتوبر میں ضمانت ملنے سے قبل بدعنوانی کے الزام میں نو ماہ کی قید ہوئی تھی ۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لئے دوبارہ بڑے پیمانے پر احتجاج لانچ کرنا اب پی ٹی آئی کے لئے ممکن نہیں رہا چنانچہ بہتر یہی ہوگا کہ پارلیمنٹ میں بامقصد مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھتے ہوئے، پی ٹی آئی اپنی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دے ممکنہ راستہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ موثر سیاسی اتحاد بنانا ہے جو ریاست کے خلاف شکایات کے ازالہ کا ایسا فورم بن جائے جو سماجی یا انسانی حقوق جیسے اجتماعی مسائل پر مرکوز متحدہ قومی احتجاج کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شوشل میڈیا ہائپ پر حد سے زیادہ انحصار نے پی ٹی آئی کو سیکھایا کہ عملی سیاست میں آن لائن بیانیہ سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
سیاسی مبصرین بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کی طرف سے کارکنوں کو مصیبت میں چھوڑ کر اچانک پسپائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک تو یہ بات آدمیت کے خلاف ہے کہ معصوم انسانوں کو کسی خارجی مقاصد کے حصول کے لئے آلہ کار کے طور پہ استعمال کیا جائے ، دوسرا ایسے اقدامات سے پارٹی کے اندر اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوئی ہے بلاشبہ جس طرح انہوں نے ڈی چوک پر اپنے حامیوں کو بے یار ومدد گار چھوڑا اس سے پارٹی کے اگلے اقدامات کی تشکیل کی صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے ۔ پچھلے دو سالوں میں عمران خان مقبولیت کے زعم میں جس طرح ریاست کا بازو مروڑنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آئے اس سے انکی پاور پالیٹکس کے ہنر سے لاعلمی واضح ہوتی ہے ، اگر وہ خود شناس رہنما اور دانشمند سیاستدان ہوتے تو وہ اپنی مقبولیت کو خاموش مزاحمت کے آرٹ میں ڈھال کر ریاستی اتھارٹی کی قوت قہرہ کو کُند بنا سکتے تھے لیکن وہ کلٹ لیڈر کی طرح اپنے بپھرے ہوئے حامیوں کے ہمراہ دیگر متبادل سیاسی قوتوں کو کچل کر بلاشرکت غیرے ایسا استبدادی اقتدار چاہتے ہیں جو تقسیم اختیارات کی ڈاکٹرئن سے ماوراء ہو، گویا دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والے ایٹمی ملک میں مقتدرہ کے ساتھ ملکر نازی طرز کی حکمرانی قائم کرنے کی اِسی خواہش نے عمران خان کو دنیا بھر کے لئے خطرہ بنا دیا ہے ۔ لا ریب ، تاریخ کی رفتار و معنی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ بہ تسلسل اور باتواتر تشدد اور من مانی کاروائیوں کا دائرہ تنگ تر اور صلح و امن کے خط میں توسیع ہوتی رہے ۔ جس طرح کے حالات سے ملک گزر رہا ہے اس کے لئے ضروری تھا کہ سیاسی عمل کو متوازن رکھنے کے لئے خاموش مزاحمت کی راہ اپنائی جاتی ، غیر فعال مزاحمت سیاست کا وہ موثر حربہ ہے جس میں اکثر حکام کے ساتھ عدم تعاون شامل ہوتا ہے اور یہی جدید دور میں بہت سی قوم پرست (پی ٹی ایم) ، مزاحمتی اور سماجی تحریکوں کا بڑا ہتھیار رہا ہے۔ غیر فعال مزاحمت میں عام طور پر ایسی سرگرمیاں درکار ہوتی ہیں جیسے بڑے پیمانے کے پُرامن مظاہرے، قانون کو ماننے یا اس پر عمل کرنے یا ٹیکس ادا کرنے سے انکار ، مزدوروں کی ہڑتالیں، معاشی بائیکاٹ اور اسی نوع کی دیگر غیر متشدد سرگرمیاں شامل ہیں ۔ امریکہ میں بھی ”مزاحمت “ ایک لبرل اور بائیں بازو کی سیاسی تحریک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی اور دوسری صدارت کے خلاف احتجاج کرتی ہے ، جس کا مقصد اتھارٹی کو چیلنج کرنا اور تشدد یا جارحیت کا سہارا لئے بغیر تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہے ، یہ سماجی اور سیاسی تبدیلی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ اور فعال دھارا ہوتا ہے جو ناانصافیوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کے علاوہ تبدیلی کے لیے دباو پیدا کرتا ہے ۔ موہن کرم چند گاندھی کہتے ہیں کہ غیر فعال مزاحمت ذاتی مصائب سے حقوق حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ہتھیاروں سے مزاحمت کا الٹ ہے ۔ جب میں کوئی ایسا کام کرنے سے انکار کرتا ہوں جو میرے ضمیر کے خلاف ہو تو میں روح کی طاقت استعمال کرتا ہوں ۔ مثال کے طور پر وقت کی حکومت نے ایک قانون پاس کیا جو مجھ پر لاگو ہوتا ہے ، اس کے خلاف بھوک ہڑتال کرکے توجہ لینا یا منطقی دلائل کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرنا محفوظ راہ عمل ہوتی ہے ۔ گاندھی کے خیال میں ستیہ گرہ ایک اخلاقی قوت تھی جو ایمانداری اور عدم تشدد سے ملکر بنی تھی ۔ گاندھی نے غیر فعال مزاحمت اور ستیہ گرہ میں فرق کیا یعنی ستیہ گرہ تشدد سے منع کرتا ہے، غیر فعال مزاحمت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جسمانی قوت برداشت کو وسیلہ بناتی ہے یعنی پُرامن طریقے سے یہ ظاہر کرنے کا عمل کہ آپ تشدد کا استعمال کرنے کے بجائے کسی چیز کی اصولی مخالفت کرتے ہیں ، مہاتما گاندھی نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف غیر فعال مزاحمت کی کئی مہمات چلائیں ۔ غیر فعال مزاحمت کی بنیادی وجہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں اختلاف رائے کے براہ راست اظہار کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ جب شہریوں کو لگتا ہے کہ وہ کھل کر اپنی رائے اور جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے، تو وہ اس کے اظہار کے مزید بالواسطہ طریقوں کا سہارا لیتے ہیں ، ایک تشکیل شدہ اتھارٹی کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کے حربے غیر متشدد مزاحمت سے لیکر سول نافرمانی تک پھیل سکتے ہیں ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں۔ایڈیٹر