امیروں کی عیاشیاں،غریبوں پر قہر ،نئے بجٹ کا پوسٹمارٹم

Jul 02, 2024 | 12:23:PM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)اشرافیہ اِس ملک کے وسائل پر قابض رہی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت اشرافیہ کی کمر توڑنے کی بجائے اِن کو ریلیف دے رہی ہے۔اور خمیازہ غریب عوام بھگت رہے ہیں ۔وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ اضافی ٹیکس سے کافی لوگوں پر دباؤبڑھا ہے جیسے ہی کوئی مالی گنجائش ہوئی تو تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں گے۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر خزانہ کا یہ اعتراف کرلینا ہی کافی ہے؟

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ جہاں تک ریلیف دینے کی بات ہے تو یہ صرف اشرافیہ کو دیا جارہا ہے۔اب آپ دیکھئے کہ سعودی عرب امارات اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں مزدوری کرکے پاکستان میں اپنے خاندانوں کا پیٹ بھرنے والوں کے ایئرٹکٹ پر ٹیکس بڑھانے کی منظوری دینے والوں نے اپنے لئے سالانہ مفت ائیر ٹکسٹس 25 سے بڑھا کر 30 کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔

سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ حکومت  نے ائیر ٹکٹس پر ٹیکس لگایا ہے جو عوام کی جیبوں سے نکالا جائے گا۔کیونکہ یکم جولائی یعنی آج سے بین الاقوامی سفر کیلئے اکانومی اور اکانومی پلس ٹکٹ پر 12500 روپے ٹیکس دینا ہوگا۔ امریکا اور کینیڈا کیلئے بزنس کلاس اورکلب کلاس ٹکٹ پر ایک لاکھ روپے اضافی ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ جبکہ یورپ کیلئے یکم جولائی سےبزنس کلاس اورکلب کلاس کے ٹکٹ پر 60 ہزار روپے اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔یورپ کے فضائی سفر کیلئے بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر 2 لاکھ 10 ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا۔نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے یکم جولائی سے بزنس کلاس اورکلب کلاس کے ٹکٹ پر60 ہزار اضافی ٹیکس ہوگا۔

دبئی، سعودیہ سمیت مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کے بزنس اورکلب کلاس ٹکٹس میں30 ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا۔بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار اور کاروباری طبقے کی آمدن پر 10 فیصد اضافی سرچارج لگا دیا ہے۔ جبکہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی شرح 39 فیصد ہے۔ ماہانہ ایک لاکھ روپےآمدن پر پہلے سے دوگنا ٹیکس دینا ہوگا ۔ ایسوسی ایشن آف پرسنز کو 44 فیصد جب کہ کاروباری طبقے کو 50 فیصد تک انکم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ، لیکن حاضر سروس اور ریٹائرڈ سول و فوجی افسران کو پراپرٹی کی فروخت یا ٹرانسفر پر ٹیکس استثنا دے دیا گیا ہے۔بلڈرز اور ڈویلپرز کو تعمیرات ، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کی فروخت پر 10 سے 15 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔

ضرورپڑھیں:بجلی بلوں پر31 ٹیکسز،حکمرانوں کی عیاشیاں،مفت بجلی دینے کے وعدے کہاں گئے؟

نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کو مختلف ٹرانزیکشنز پر ٹیکس دینا ہو گا ۔یعنی مڈل کلاس طبقہ اپنی محدود آمدنی سے ٹیکس بھی ادا کرے گا جبکہ اشرافیہ کو ہر طرح کا ریلیف ملے گا۔اشرافیہ معیشت پر بوجھ بن رہی ہے ۔اور یہی بات آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا جارجیوا بھی کہہ رہی ہیں کہ امیروں سے زیادہ ٹیکس لیا جائے اور غریبوں کو تحفظ دیا جائے۔لیکن پاکستان میں اُلنی گنگا بہہ رہی ہے ۔یہاں غریبوں سے زیادہ اور امیروں سے کم سے کم ٹیکس لیا جارہا ہے ۔یہ معاشی نا انصافی ہے۔اگر حکومت نے توازن قائم نہیں کیا تو آنے والے دنوں میں وہ عوام رد عمل کا شکار ہوسکتی ہے ۔اب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ 42 ہزار دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی نوید سنا رہے ہیں۔لیکن دیگر اشرافیہ سے ٹیکس وصولی پر اِن کا کوئی پلان نظر نہیں آرہا؟کیا حکومت نے یہ ذہن بنا لیا ہے۔شاہد خاقان عباسی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگایا ہے اور اُس ٹیکس میں سے بھی ٹیکس موصول کیا جائے گا جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔
دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں دیکھا کہ وہاں اشرافیہ اِتنی مضبوط ہو جتنی ہمارے ہاں ہے۔اشرافیہ کی جائدادیں باہر ہیں ۔لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔یعنی یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں ۔ اشرافیہ کیلئے الگ پاکستان ہیں جہاں ہر طرف پیسے کی چمک دمک،وسائل کے بہتے دریا ہیں۔لیکن دوسری جانب غریب کا پاکستان ہے۔جہاں ٹیکسز کی بھرمار ہے،مہنگائی اور بےروزگاری عروج پر ہے ۔دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے ۔ایسے میں امیر اور غریب طبقے میں بڑھتی کشمکش کیسے ختم ہوگی؟یہ اہم سوال ہے۔

دیگر کیٹیگریز: ضرور پڑھئے - انٹرویوز
ٹیگز: