اسرائیل کی تباہی میں 5 سال باقی

حسیب اصغر | طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپایا ہے جس کے بعد اسرائیل  جنگ بندی کی کوششوں میں لگ گیا ہے کیونکہ اس کی معیشت کوسنگین دھچکا پہنچا ہے

Nov 02, 2023 | 12:39:PM

تورات اور تالمود کےمطابق زندگی گزارنے والے قدامت پسند یہودیوں کو یقین راسخ ہے کہ اسرائیل نامی ریاست کی عمر 80 برس سے زیادہ نہیں ہے, دوسرے لفظوں میں خود انہیں یقین ہے کہ فلسطین کی زمین پر جبری غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل سنہ 2028ع‍ میں  مکمل طور پر نقشے سے مٹ جائے گی ۔

ارضِ اسرائیل سے مراد یہودیوں کے مطابق، وہ زمین ہے جو تورات کی رو سے، خدا نے آل ابراہیم کو سونپی ـ تورات میں خدا کا ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کے بدلے خدا ان  کی آل کو عظیم قوم بنائے گا، اس ہی کو یہودی دستاویزات میں عہدِ ابراہیمی کہا جاتا ہے ـ 
اس عہد میں ارضِ اسرائیل بھی شامل ہے جو کنعان اور تاریخی فلسطین کو ملا کر بنتا ہے ـ یاد رہے کہ ارضِ اسرائیل ایک یہودی تصور ہے جس سے تورات میں موجود کئی جگہوں کے نام منسلک ہیں مگر ان قدیم مقامات کی کوئی ٹھوس سرحدیں نہیں بیان کی جاسکتیں اور موجودہ تورات میں درج مقامات کے ناموں کو کو اگر کسی نا کسی طور عہد حاضر کے علاقائی ناموں سے پہچاننے کی تگ و دو کی جائے تو اس میں موجودہ اسرائیل، فلسطین اور اردن کے کچھ حصے شامل بتائے جاتے ہیں جس پریہودیوں کیلئے ایک سلطنت دوبارہ بنانے کا خواب صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے  دیکھا ، ہرزل نے 20 ویں صدی کے دوران مستقبل کی یہودی ریاست کے قیام کا تصور دیا۔

انہوں نے استدلال کیا کہ یورپ میں سام مخالفت سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک آزاد یہودی ریاست تشکیل دی جائےاس نظریے پر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی ترغیب دی گئی، حالانکہ ارجنٹائن میں یہودی ریاست کے امکان پر بھی غور کیا جارہا تھا اور یوں فروری 1896میں  اس پر کام باقاعدہ شروع کردیا اور سالوں کی ریاضت سے بالآخر  1948 کو فلسطین کی زمین پر قبضہ کرکے امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے غیر قانونی صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا ۔

ضرور پڑھیں:گریٹر اسرائیل ذہنی اختراع نہیں بلکہ حقیقت ہے

ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان تو کردیا گیا اور اس نے خوب طاقت بھی حاصل کی لیکن یہودیوں کی تاریخ اور مذبہی  کتب اس حوالے سے جو انتباہات کرتی ہیں وہ پڑھنے کے بعد پڑھنے والے کو اسرائیلیوں کی محنت پر افسوس ہوگا اور ان کی عیاریاں ،درندگی ، دھوکہ دہی اور بے وفائیوں پر نظر ڈالیں گے تو ان کے آنے والے انجام سے راحت بھی ملے گی۔
تاریخی حقائق کے مطابق، یہودیوں کی دو سابقہ حکومتوں (داؤد (علیہ السلام) کی بادشاہی اور ] حشمونی سلطنت یا سلطنت حشمونیہ [80  برس سے زیادہ قائم نہیں رہ سکی ۔ چنانچہ ان کی تیسری ریاست  جو فی الوقت مقبوضہ فلسطین میں قائم ہے  وہ  یہودی سنت  اور عائقد کے مطابق عنقریب ختم ہونے والی ہے۔


"یہودیوں کی ساڑھے تین ہزار سال پرانی تاریخ میں، یہودیوں کی کوئی ریاست 80 سال سے زیادہ نہیں رہی،   عبرانی بائبل کے مطابق، داؤد اور اُن  کے گھرانے — اُن کی اولاد — کو خُدا نے تمام اسرائیل پر حکومت کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔2-سام 7:1-17)۔ یہاں "اسرائیل" کی اصطلاح ایک متحدہ مملکت کو گھیرے ہوئے ہے جس میں جنوب میں یہوداہ کا قبیلہ، داؤد  کا آبائی علاقہ جہاں وہ پہلی بار اقتدار میں آیا، اور اسرائیل کے دس شمالی قبائل، جہاں ساؤل نے اپنی بادشاہی سنبھالنے سے پہلے حکومت کی تھی۔ داؤد کے بیٹے اور وارث سلیمان کی موت کے بعد، اسرائیل کے قبیلے متحدہ سلطنت سے الگ ہو گئے، اور اس طرح، داؤد کے پوتے رحبعام سے شروع ہو کر، داؤد کا خاندان صرف یہوداہ پر حکومت کرتا تھا، جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ 586 قبل مسیح میں یروشلم کی بابل کی تباہی اور آخری ڈیوڈک بادشاہوں، یہویاکین اور صدقیاہ کی جلاوطنی نے اس کی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ 


اس کے بعد  حشمونی سلطنت یا سلطنت حشمونیہ   جو  زمانہ قدیم میں یہوداہ اور اس کے مضافات پر حکمران ایک نیم خود مختار شہنشاہی سلسلہ تھا جس نے116 قبل مسیح سے لیکر 160 قبل مسیح تک سلوقیوں کے زیر خراج یہوداہ پر حکومت کی۔ سلسلہ حشمونی 110 قبل مسیح میں سلطنت سلوقیہ کے زوال کے بعد خود مختار و مستقل ہو گیا اور اور اپنی ریاست کی حدود کو مضافات مثلاً سامیریا، گلیل، اطوریا، پیریا اور ادومییا کو بھی شامل کرکے سلطنت کو مزید وسیع کر لیا۔ اور باسیلوس (بادشاہ یا سلطان) کا خطاب اختیار کیا۔ عصر حاضر کے کچھ اسکالر اس عہد کو آزاد سلطنت اسرائیل قرار دیتے ہیں۔ سن 63 قبل مسیح میں اسے رومیوں نے فتح کر کیا اور سلطنت کے ٹکڑے کر کے اس کو جمہوریہ روم کے تحت کئی صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ سلطنت حشمونی 103 برس تک قائم رہی تاوقتیکہ 37 قبل مسیح میں سلطنت ھیرود نے ان لوگوں کو فتح کر لیا جو ایک جابر اور خود مختار حکومت تھی درحقیقت وہ ظاہرا خود مختار تھے جبکہ عملا شاہزادہ روم کے احکامات کے پابند تھے۔یہودی تاریخ میں یہ دونوں ادوار میں یہود کا دور حکومت رہا جس میں ان کی سلطنت قائم ہوئی  لیکن آٹھویں دہائی میں اس کے ٹوٹنے کا آغاز ہوا ۔


جو تاریخ میں نے آپ کے سامنے پیش کرنےکی کوشش کی ہے یہ کوئی ٹیبل اسٹوری نہیں ہے اور نا ہی یہ میری جانب سے میرے مضمون کو دلچسپ بنانے کیلئے  اپنی ذہن سے تیار کی گئی کہانی ہے اس کی تصدیق کیلئے  سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک کا ایک انٹر ویو قارئین کی خدمت میں پیش  کرنا چاہوں گا۔

دوسال قبل ، اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے " اسرائیلی اخبار Yedioth Ahronoth میں  اسرائیل کے قیام کی 80 ویں سالگرہ قریب آنے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "یہودی تاریخ تاریخ کے مطابق یہودیوں کے پاس دو غیر معمولی ادوار کے علاوہ 80 سال سے زیادہ عرصے تک کوئی ریاست نہیں رہی سوائے دو ادوار کے جس  میں ایک کنگ ڈیوڈ (بادشاہ داؤد)کا دور اور دوسرا (حشمونی سلطنت یا سلطنت حشمونیہ) کا دورشامل ہے ، اور دونوں ادوار میں آٹھویں دہائی میں اس کے ٹوٹنے کا آغازہوا ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل عبرانی صہیونی ریاست کا موجودہ تیسرا تجربہ ہے جو اب اپنے آٹھویں عشرے میں داخل ہوچکا ہے انہیں خدشہ ہے کہ آٹھویں دہائی کی لعنت اس پر بھی اسی طرح نازل ہوگی جس طرح اس کے پیشرو پر پڑی تھی۔

ایہود باراک نے نشاندہی کی کہ آٹھویں دہائی کی لعنت سے صرف وہی لوگ متاثر نہیں ہوئے تھے جو یہودی ریاست میں موجود تھے بلکہ اس سے وہ یہودی بھی متاثر ہوئے تھے  جو امریکہ میں تھے ، انھوں نے بتایا کہ آٹھویں دہائی میں  امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہوئی، آٹھویں دہائی میں اٹلی ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو گیا جہاں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی گئی ، جرمنی آٹھویں دہائی میں نازی ریاست میں تبدیل ہو گیا جہاں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو جانوروں کی طرح قتل کیا گیا جو اس کی شکست و ریخت کا سبب بنا، اور آٹھویں دہائی میں کمیونسٹ انقلاب نے  سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔


ایہود باراک کا کہنا تھا کہ موجودہ یہودی ریاست "اسرائیل ایک سنگین صورتحال اور غیر یقینی کے  ماحول میں واقع ہے جس میں کمزوروں کے لیے کسی قسم کے  رحم  کی گنجائش نہیں ہے "، کسی بھی خطرے کو کم کرنے کے سنگین نتائج کی تنبیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا، "اس یہودی ریاست کو سنبھالنا بہت مشکل ہے لیکن یہ ضروری بھی ہے جو کہ چاروں جانب سے دشمنوں سے گھری ہوئی ہے  ان کا اشارہ (ملک شام ، مصر ، اردن کی جانب تھا جبکہ اس خطے میں دیگر اسلامی ممالک جن میں سعودیہ عرب ، یمن ، عراق ، ایران ، لیبیا ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، بحرین، لبنان  اور افریقی ملک سوڈان وغیرہ کی جانب تھا)ان تمام ممالک کے درمیان میں ہوتے ہوئے "اسرائیل نے ایک خودمختار سیاسی وجود کو قائم رکھنے کا شاندار مظاہرہ کیا ہے جو اپنے آب و تاب سے فی الحال جاری ہے۔"


اسرائیل کے پہلے وزیر برائے سلامتی اور سابق وزیر اعظم نے نام لئے بغیر حالیہ صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان پر عائد سنگین بدعنوانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ ویسے تو تاریخی اعتبار سے اسرائیل کیلئے آٹھویں دہائی تباہی ہی لائی ہے اور اس مرتبہ بھی "اسرائیل کے لیے آٹھویں دہائی نے جن  حالات کا آغاز کیاہے وہ  خودمختاری کے ٹوٹنے جمہوری ملک میں بادشاہت کے خاندان کا وجودہے  اور یہی وہ دو بڑی وجوہات ہیں جو یہود کی تباہی کاباعث بنا تھا انھوں نے کہا کہ ہم تلمود کے انتباہات کو نظر انداز کرکے ہم نے یہ ریاست (اسرائیل )تو قائم کرلی تھی  لیکن تلمود کے مطابق  اب ہم اس کی بربادی کی جانب تیزی سے جارہے ہیں ۔


انھوں نے اسرائیل کے حالیہ سیکیورٹی کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سے پہلے اپنی سلطنت   بنا کر تباہ ہوچکے ہیں اور اسرائیل ہماری تیسری کوشش ہے تاہم یہ کوشش ہمارے عقیدے اورمذہبی تعلیمات کے برخلاف ہے لیکن ہم نے اس کوقائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اب سب کچھ ویسا ہی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جیسا ہماری دیگر سلطنتوں اور بادشاہتوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ہم آٹھویں دہائی میں پہنچ چکے ہیں اور ہم گویا جنون کی ایک ایسی غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہیں جو ہر گزرتے وقت کےساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔ 


انھوں نے کہا کہ صحافی ایری شاویت نے بھی اپنی کتاب "دی تھرڈ ہاؤس" میں "ریاست اسرائیل" کی آزادی کی آٹھویں دہائی کے حوالے سے سنگین اور تلخ حقیقت کا اظہار کیا ہے ہم یہودی خود اپنے دشمن بن گئے ہیں۔تلمود کے انتباہات کو صریح طور پر نظر انداز کر کے، ہم اپنی بربادی کے  انجام میں جلدی کررہے ہیں گوکہ ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل اپنی تباہی کی جانب جائے گا ہی کیونکہ یہ تلمود کا حکم ہے لیکن پھر بھی ہم نے ایک ریاست کو قائم کیا۔ایہود باراک سے پہلے 2017ع‍ میں اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ اور موجودہ غیر قانونی صیہونی وزیر اعظم  بینجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ: “میں بھرپور کوشش کروں گا کہ کسی نا کسی طرح اسرائیل کو 100 ویں سالگرہ تک پہنچا دوں کیونکہ ہمارا وجود نہ ضمنی ہے منطقی ہے اور نا ہی یہودی تعلیمات کے مطابق ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ یہودی قوم کا کوئی بھی ملک 80 برس سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا ہے”


حیفا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور تاریخ کے شعبہ جات کے سربراہ مینا چم راحت  اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ آؤشوِٹس ڈیتھ کیمپ کے ایک داخلی دروزاے پر میں نےمیں امریکی فلسفی سینٹایانا کہ  لکھا گیا تاریخی اقتباس پڑھا: "جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انہیں اس کو دہرانے کی غلطی کرتے ہیں تاریخ انھیں عبرت بنا دیتی ہے " اور اس کے ساتھ ہی مجھے اس وقت تیونس کے سابق صدر حبیب بورگیبا کی پیشین گوئی یاد آئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ : ''عربوں کو اسرائیل سے نہیں لڑنا چاہیے۔ یہودی اپنے اندرونی جھگڑوں میں خود کو تباہ کر لیں گے۔اسرائیل کی ریاست، اب اپنی زندگی کی آٹھویں دہائی میں اور اپنی 75ویں سالگرہ منانے والی ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ ایک برادرانہ جنگ کے خطرے کے قریب ہے، ہر ایک اپنے بھائی کے خلافہ ہے (یہاں اندرونی اختلاف سے ان کی  مراد فلاشہ یہودی اور اشکنازی یہودی ہیں)۔ یہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا لمحہ ہے، اس سے پہلے کہ ہم نفرت کی آگ میں خود کو تباہ کر دیں۔


انھوں نے لکھا کہ  ہمیں تاریخ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اس سے قبل ہم دومرتبہ اپنی خودمختار یہودی سلطنتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور دونوں مملکتوں کے زوال کا آغاز ان کے وجود کی آٹھویں دہائی میں ہوا۔ اب ہم ایک طاقتور خودمختار ریاست کے قیام میں بہت کامیاب ہیں لیکن اب اسرائیلیوں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہاں کی صورتحال اس خوفناک فلم کی طرح نہ بن جائے جو ہم پہلے ہی دو بار دیکھ چکے ہیں۔بادشاہ داؤد کی ریاست نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں اور 80 سال تک متحد رہی۔ 81 ویں سال میں اندرونی تنازعات کی وجہ سے داؤد کی بادشاہی یہودا اور اسرائیل  الگ الگ مملکتوں میں بٹ گئی اور یوں اس کا زوال شروع ہو گیا۔ اس عمل میں، ہم نے اپنے لاکھوں بھائیوں، دس قبائل کو کھو دیا، جو ربی اکیوا کے مطابق، "مستقبل میں واپس نہیں آئیں گے۔"
دوسری یہودی ریاست ایک متحدہ اور خودمختار مملکت کے طور پر 77 سال تک موجود رہی ۔ اپنی زندگی کے آٹھویں عشرے میں، تخت کی لڑائی کے باعث 77 سال تک موجود رہی اور آخر کار دونوں فریقوں کےدرمیان بادشاہت کے حصول کے باعث تباہ ہوگئی ۔


اگر اسرائیل کی حالیہ سیاسی حالات کا مطالعہ کیا جائے تو آ پ کو معلوم ہوگا کہ اسرائیل میں گذشتہ پانچ سالوں کےدوران پانچ  مرتبہ الیکشن ہوچکے ہیں اور ہرمرتبہ اندرونی اختلافات  اس قدر شدید تھے کے کوئی حکومت ایک سال بھی حکومت نہیں چلاسکی ،اسرائیلی تجزیہ نگار گڈیون لیوی اسرائیلی فوج کے لئے درد سر بنے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اندرونی اختلاف اور عدم خود اعتمادی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے  دن گنے جا چکے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل  کا کوئی علاج نہیں ہے نہ آئرن ڈوم  ہمارا مسئلہ حل کرسکتا ہے، نہ آہنی دیواریں اور نا ہی جدید ٹیکنالوجی اور نہ ہی ایٹم بم، ہمارے مسائل حل کرنے کے قابل ہیں۔

اسرائیل کے حالیہ سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انتخابات میں صیہونی وزیراعظم نے کامیابی تو حاصل کی لیکن وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے ان کے پاس مضبوط حکومت نہیں بلکہ مجبور حکومت ہے ان کی حکومت دائیں بازو کی جماعت کے صرف ایک ووٹ پر ٹکی ہوئی ہے نیتن یاہو کی کابینہ کی تشکیل کی کوششوں کے آغاز سے ہی تل ابیب کے اندرونی تنازعات کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے  ایک طرف تو سرکاری عہدوں کی تقسیم شدید اختلافات ہیں ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ طاقت ور عہدے پر فائز ہو ایک گروہ کو جتنی رعایتیں دی جا رہی ہیں، مخالف گروہ  کو محروم رکھا جارہا ہے جس کے باعث حکومت سازی انتہائی مسائل کا شکار ہے اس سے زیادہ اہم وہ شدید انتباہات ہیں جو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے بر سر اقتدار آنے کے حوالے سے سامنے آرہے ہیں؛ اور دوسری طرف سے یہودی یہودی نوآبادیوں کے رہائشیوں کی طرف سے حکام کی وسیع بدعنوانیوں پر شدید ناراضگی پر مبنی بیانات ہیں۔ صہیونی وزیر خزانہ لیبرمین کے الزامات صہیونیت کو درپیش مسائل کو نمایاں کرنے کا اہم ترین اظہار ہیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو وہ شخص ہے جو اسرائیلوں کو دو قوموں یا کئی قوموں میں تقسیم کرے گا اور اسرائیلی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کرے گا۔


مضمون میں ابھ+ی کافی کچھ ہے جو رہ گیا ہے لیکن اس کی طوالت کے باعث اختتام کرنا چاہوں گا لیکن چند ضروری  معلومات   اس موضوع میں اگر شامل نہیں کی گئی تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا اس مضمون میں میں اپنے گذشتہ مضمون کا کچھ حصہ شامل کررہا ہوں جس کو پڑھ کر یہ سمجھنےمیں آسانی ہوگی کہ اسرائیل اپنی تباہی سے کتنا دور ہے۔


اسرائیلی میڈیا ذرائع کے مطابق حالیہ ایک سال کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے شدت پسند اتحادی اسرائیل میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے شدید خواہش مند ہیں جو کسی کو جوابدہ نہیں ہو۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو اور ان کے بعض اتحادیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے یا یوں کہا جائے کہ سپریم کورٹ سے اختیارات لے کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کو دینے کی بھرپور کوششیں کیں اور اس کےلیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا۔ اس کے حوالے سے بل کا ایک حصہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظور بھی کیا جاچکا ہے تاہم اس بل کو مکمل طور پر منظور ہونے سے پہلے ہی اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد نے اسرائیلی وزیراعظم اور اس بل کو تیار کرنے والوں کے خلاف شدید احتجاج شروع کیا اور یہ احتجاج گزشتہ 10 ماہ سے جاری تھا، جس میں اسرائیلی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس بل کے خلاف جہاں اسرائیلی شہری سراپا احتجاج تھے، وہیں اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد بھی اس احتجاج میں شامل ہوچکی تھی۔

19 جولائی 2023 کو رائٹرز کی خبر کے مطابق سیکڑوں اسرائیلی ریزرو فوجیوں نے تل ابیب میں مارچ کیا اور حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کو روکنے کے متنازع منصوبے کے خلاف اسرائیلی فوج میں رضاکارانہ خدمات سے انکار کردیا۔ اس انکار کے بعد اسرائیل کے سربراہ ہرزی ہلیوی نے بغاوت کرنے والے ریزرو فوجیوں کو ڈیوٹی پر وپس آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختلاف کا حق ہے تاہم فوج اور ملک کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے۔


16 اگست 2023 کو اسرائیل کے معروف اخبار اسرائیل ٹائمز نے ذرائع سے ایک خبر شائع کی، جس کے مطابق اسرائیلی بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل ڈیوڈ سار سلامہ نے ایک سینئر ریزروسٹ ریئر ایڈمرل ’’اوفر ڈورون‘‘ کو ملازمت سے معطل اور رئیر ایڈمرل (ریئر) ایال سیگیو کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کیا۔ دونوں اعلیٰ افسران نے ماہ اگست کی ابتدا میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی شہریوں کے ساتھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے اسرائیلی عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے متنازع منصوبوں کے خلاف احتجاج میں عام شہریوں کے ساتھ شامل رہیں گے، اور اسرائیلی فوج کےلیے مزید خدمات دینے کےلیے تیار نہیں۔ دونوں افسران نے موجودہ اسرائیلی حکومت کو اسرائیل کےلیے کینسر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔


اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عدالتی اصلاحات کے نام پر اختیارات کو محدود کرنے کی مخالفت کرنے والوں میں نہ صرف اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران شامل ہیں بلکہ ملک کا سب سے طاقت ور انٹیلی جنس ادارہ ’موساد‘ بھی حکومتی اقدامات کے خلاف نظر آرہا ہے۔ اسرائیلی فوج، خفیہ ایجنسی اور شہریوں کی جانب سے اس کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور گزشتہ تقریباً ایک سال سے اسرائیل میں اس قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے حاصل اطلاعات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اسرائیلی فوج میں حکومتی پالیسیوں کے باعث مایوسی پائی جارہی ہے اور وہ فوج کی خدمات کےلیے تیار نہیں، جبکہ دوسری جانب اسرائیلی اپنی حکومت کے فیصلوں سے دل برداشتہ ہوکر ملک سے منتقل ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حماس،اسرائیل جنگ،اسلامی تنظیم کی فتح یا 20لاکھ مسلمانوں کی قبربنانے کا منصوبہ؟سوالات اٹھ گئے
یہ تمام صورتحال اس جانب اشارہ کررہی ہیں جو قدامت پسند یہودیوں کا عقیدہ ہے  کہ اسرائیل آٹھ عشروں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکے گا اور حالیہ غزہ پر وحشیانہ بمباری کے بعد جو ردعمل اسلامی مزحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ اور لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی جانب سے آیا ہے اس نے اسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے 
اب جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس وقت تک غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو 24 روز گزرچکے ہیں  اور طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپایا ہے جس کے بعد اسرائیل  جنگ بندی کی کوششوں میں لگ گیا ہے کیونکہ اس کی معیشت کوسنگین دھچکا پہنچا ہے جبکہ شہریوں کو احتجاج شدت اختیار کرچکا ہے۔

 نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

مزیدخبریں