صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی،چیف جسٹس

Nov 02, 2023 | 13:39:PM

(امانت گشکوری ) اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز  میں انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ  صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی ۔ 

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران  پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے اور کہا کہ  اس طرح معاملہ چلتا رہا تو انتخابات نہیں ہوسکیں گے،صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90دن کے اندر الیکشن کی تاریخ دے گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  کیا تاریخ دینے یلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ  کرنا ضروری ہے ؟، پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ مشاورت ضروری  نہیں ہے، صدر کا اپنا آئینی فرض ہے کہ وہ تاریخ دے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں  ہو سکتی، جسٹس امین الدین نے کہا کہ جو حکم آپ لکھوانا چاہ رہے وہ بھی صدارتی استثنی کیخلاف ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت آئین کی خلاف ورزی کو درگزر کر دے؟ عدالت ایک دن کی تاخیر بھی کیوں درگزر کرے؟چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو،عدالت کو نظریہ ضرورت کی طرف نہ لے کر جائیں۔

آپ اپنے لیڈر کو کہیں صدر کو کال کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں 
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی،وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے،الیکشن کمیشن نے کہا یہ صدر کا اختیار نہیں،
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟،علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنایا،چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں؟چیف جسٹس صدر نے تاریخ نہیں دی تو کیا انکے خلاف کارروائی ہوسکتی؟جس نے تاریخ نہیں دی اس کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس کریں،آپ کے دلائل تو یہ ہیں کہ صدر نے تاریخ نہیں دی تو کاروائی کریں،آپ اس جماعت کی نمائندگی کررہے جس کے لیڈر کو صدر نے لیڈر کہا،آپ اپنے لیڈر کو کہیں کہ صدر کو کال کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرا دیں ، پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ اب ہر شخص آئین کی خلاف ورزی کر رہا،چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہر شخص نہیں آپ بولیں صرف صدر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ، وکیل علی ظفر کا  کہنا تھا کہ صدر نے 6 نومبر کی تاریخ دی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے 6 نومبر کی تاریخ نہیں دی بلکہ کہا کہ یہ آخری دن بنتا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟چیف جسٹس جب صدر نے ہم سے کچھ کہا نہیں تو پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے  ہیں ؟صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے،وکیل علی ظفر نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ صدر کو انفرادی نہیں بلکہ صدر مملکت کے طور پر دیکھا جائے، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ صدر فرد نہیں ادارہ ہے، پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ صدر کے مطابق انتخابات کی تاریخ 7 نومبر بنتی تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صدر نے کہاں پر انتخابات کی تاریخ دی یہ بتا دیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ تاریخ صدر کو دینا تھی، آئین کی خلاف ورزی 7 نومبر کو ہو جائے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کو تو تمام طریقہ کار معلوم تھا، صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل لیکن انہوں نے تاریخ دی کب؟
صدر مملکت کی گنتی درست تھی کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے 89واں دن 6 نومبر ہے، صدر مملکت نے تاریخ نہ دے کر خود آئینی خلاف ورزی کی، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ،علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا،9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات ممکن نہیں تو صدر کو کہا جائے 54 روز میں انتخابات کا اعلان کریں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صدر کو کون کہے گا آپ نہیں بلکہ ہم 3 ججز ہی کہہ سکتے ہیں،جب ہم آرڈر جاری کریں گے کہ تو جو تاخیر کا ذمہ دار ہوگا اس کیخلاف لکھیں گے،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی تو ہوچکی جس نے خلاف ورزی کی نتائج بھگتنا ہونگے،تاریخ جہاں سے آئے ہم نے یہ دیکھنا کہ بس انتخابات ہونے چاہیں،
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر نے تاریخ دینی تو پھر ٹھیک ہے صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی ہم لکھ دیں گے،اگر الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت کرنا تھی تو اس نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی،آئین کی خلف ورزی 7 نومبر سے شروع ہوگی،وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سن لیں ہوسکتا ہے کوئی حل نکل آئے،چیف جسٹس نے کہا کہ صدر ہاتھ کھڑے کر کے کہ رہے جاؤ عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں، انتخابات میں التواء کیلئے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر ہر دن آئینی خلاف ورزی ہے، 
چیف جسٹس کا مذید کہنا تھا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے،آئین پر عملدرآمد عدالت کی ذمہ داری ہے،جس نے آئین کی خلاف ورزی کی کاروائی تو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں :بنگلہ دیش کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکان روشن ؟

مزیدخبریں