تحریک انصاف میں روز اول سے انصاف کا ہی بحران ہے ، پارٹی اپوزیشن میں تھی تو بھی مخلص کارکنوں اور مخلص رہنماؤں سے بےانصافی ، اور اقتدار میں آئی تو بھی دیرینہ کارکنوں اور دیرینہ قیادت سے بے انصافی ۔۔۔۔ عمران خان بظاہر تو صوفیاء کرام کے وژن اور تعلیمات کے علمبردار نظر آتے ہیں لیکن صوفیاء کرام کی ان تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہیں کہ جن کا فرمان ہے کہ نویں نویں ناں یار بناویں وانگ کمینیاں لوکاں ۔
حالت یہ ہے کہ ہر چند برس بعد اس جماعت کی قیادت نئے نئے لوگوں سے عبارت نظر آتی ہے کیونکہ کپتان کا فارمولا یہ ہے کہ لوگوں کو ساتھ ملاؤ ، استعمال کرو اور پھینک دو ، کسی ٹشو پیپر کی طرح ۔۔۔۔۔۔ ملک گیر سیاسی مقبولیت ملی تو پارٹی اور تنظیم "اے ٹی ایمز " کے سپرد کر دی ، پارٹی حکومت میں آئی تو تمام سرکاری عہدے مافیاز اور کارٹلز کے نمائندوں میں بانٹ دیئے ، 27 سال کے دوران پارٹی عہدوں کی تقسیم ہو یا حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ بے انصافی کا دور دورہ رہا ۔۔۔۔۔ اور نام ہے تحریک انصاف آنکھوں سے اندھی اور نام نور بی بی
25 اپریل 1996 میں پارٹی کی باقاعدہ لانچنگ ہوئی ہکا بکا کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ بانی کارکنان اور بانی لیڈران آج تحریک انصاف سے وابستہ نہیں۔۔۔۔۔
25 اپریل 1996 کو جب ایجرٹن روڈ لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقدہ کنونشن نما پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کا جنم ہوا تو جنم دن کے کئی ماہ بعد تک پارٹی کا جنرل سیکریٹری تک نہ بن سکا ۔ آنیوالے کئی برسوں تک جنرل سیکریٹری اور صوبائی تنظیموں کے اہم عہدوں پر انتخاب کی بھی نوبت نہ آئی اور نامزد گیاں ہی ہوتی رہیں ، آئے روز عہدیدار بدلتے رہے اور "وانگ کمینیاں لوکاں" نویں نویں "یار لوگ "پی ٹی آئی کے سیاہ و سفید کے مالک بنتے رہے ۔ وجہ صاف ظاہر ، کپتان کا مزاج ہی فسطائیت و آمریت کیلئے سازگار ہے اور انصاف و جمہوریت سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک سال میں مایوسی و ناامیدی سے ترقی کا سفر
تحریک انصاف کے پہلے باقاعدہ انتخاب 2002 میں ہوئے ۔ لاہور کے ایک شادی ہال میں بمشکل دو ڈھائی سو کارکنان جمع ہو سکے ، باقاعدہ ممبر شپ کا تو رواج ہی نہیں تھا ، کھانے کی دعوت میں جو کوئی بھی شریک تھا پارٹی کا ممبر ٹھہرا ، اور جو کوئی تھوڑا چرب زبان تھا اور کسی طریقے سے کپتان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا وہ تحریک انصاف کی قومی اور صوبائی قیادت کا حقدار ٹھہرا ، 2002 کے ان پارٹی "انتخابات" میں جو عہدیدار سامنے آئے ان کی اکثریت بھی آج پارٹی سے غائب ہے ،
بیرسٹر حامد خان ، نجیب ہارون ، فردوس نقوی جیسے گنے چنے بانی قائدین ہیں کہ جو آج بھی طوعاً و کرہاً پارٹی کے ساتھ چل رہے ہیں ، اندرونی تنظیمی لڑائیاں ، داخلی جھگڑے ، انتشار اور خلفشار تحریک انصاف کی ہمیشہ سے وجہ رہا۔
2002ء کے عام انتخابات سے 2008 کے جنرل الیکشنز تک کا زمانہ عمران خان کیلئے بہت اہم ثابت ہوا ، پنجابی کی مثل مشہور ہے کہ "ریگستان وچ رنڈ پردھان " ۔۔۔۔ یعنی بے آب و گیاہ صحراؤں میں جہاں کوئی درخت نہیں ہوتا وہاں صحرائی جھاڑی ارنڈ "درختوں کا بادشاہ" بن جاتا ہے ، نواز شریف اور بینظیر جیسی اپنے وقت کی مقبول عوامی قیادت کی غیر موجودگی میں عمران خان مقبول عوامی بیانیئے کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ہوا سے باتیں کرنے لگے ، افغانستان پر امریکی یلغار کے دوران امریکہ مخالفت کا چورن خوب بیچا اور ساتھ ہی امریکہ و برطانیہ سمیت نیٹو ممالک کے دورے کرکے فنڈنگ بھی کرتے رہے ، وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا یا دوسرے الفاظ میں منافقانہ کردار کی انتہا کر دینا شروع سے ہی ان کا خاصہ رہا ،
الیکٹرانک میڈیا کو ایک ایسے کردار کی ضرورت تھی ، اس نے اپنا چورن بیچنا تھا ، اس لیئے عمران خان کو طالبان خان بنا کر آئے روز ٹاک شوز میں بٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ حقیقی سیاسی قیادت موجود نہیں تھی یوں یہ ارنڈ ملکی سیاست کا واقعی "پردھان" بن گیا
پرویز مشرف کا دور ختم ہونے کے بعد جب مرکز اور صوبوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں تھیں تو اسٹیبلشمنٹ کو انہیں راہ راست پر رکھنے کیلئے "ظالمو! قاضی آ رہا ہے" جیسے کچھ کرداروں کی ضرورت تھی ۔۔۔ اس لیئے عمران خان اور طاہر القادری جیسے کردار متعارف کروائے گئے ، اسٹیبلشمنٹ نے اسٹیبلش کیا تو2011 میں تحریک انصاف کو ایک ملک گیر مقبولیت عطا ہو گئی اور کپتان ایک "عطائی لیڈر" بن کر ملک و قوم کا "علاج" کرنے کے منصوبے بنانے لگا ۔
2013 میں تیسرے "پارٹی انتخابات " کروائے گئے ، اس انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی انصاف و جمہوریت کا فقدان اور آمریت و فسطائیت کا دور دورہ رہا ، ان متنازع اور غیر منطقی فیصلوں نے 2013 کے عام انتخابات میں شکست کی بنیاد رکھ دی ، عام انتخابات ہارنے کے چند سال بعد کپتان نے ایک نئے انٹرا پارٹی الیکشن کی ٹھانی لیکن اپنی فطرت اور مزاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوبارہ الیکٹڈ کے نام پر سلیکٹڈ پارٹی عہدیدار مسلط کر دیئے گئے ۔
ضرور پڑھیں:عمران خان مائنس ؟
ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کی کپتان خود تو اپنے خلاف انتہائی حساس نوعیت کے مقدمات کے بھی اوپن ٹرائل کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اپنی پارٹی کا الیکشن کھلے عام یعنی اوپن کروانے کا حوصلہ نہیں ، قول و عمل کے ان بڑے تضادات کی شرمناک کہانی کا نیا افسوسناک باب بھی پشاور میں چوری چھپے لکھا گیا ۔ ہر وقت جمہوریت اور اوپن ٹرائل کا راگ الاپنے والے سابق وزیراعظم عمران احمد خان کے قول و فعل کے تضاد کی انتہا قوم نے پھر یوں دیکھی کہ ان کی اپنی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن نہ اوپن تھے اور نہ ہی جمہوری ۔۔۔۔ جس طرح خود سلیکٹڈ وزیراعظم بن کر ساڑھے تین سال ملک و قوم پر مسلط رہے ۔۔۔ اسی طرح ایک نیا سلیکٹڈ چیئرمین اپنی پارٹی پر مسلط کر دیا ۔۔۔ جسے یار لوگ ایک نیا عثمان بزدار قرار دے رہے ہیں
27 برسوں میں پی ٹی آئی نے چار بار انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر چار مختلف انداز کے ڈرامے رچائے ، لیکن ایک چیز ہر بار مشترک رہی اور وہ تھی بانی چیئرمین کی فسطائیت اور آمریت ۔۔۔۔ ان کا کہا حرف آخر رہا اور پارٹی کے تمام ارکان نے دولے شاہ کے چوہوں کی طرح ہر بار سو فیصد پیروی کی ۔ بانی چیئرمین کی آمرانہ سوچ اور آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے پی ٹی آئی 27 سال کی ہو کر بھی سیاسی بلوغت سے کوسوں دور ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے اس جماعت کے سارے دولے شاہ کے چوہے خود کو بقراط اور افلاطون سے کم نہیں سمجھتے، جو پارٹی اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کا مسئلہ حقیقی جمہوری طریقے سے حل نہیں کر سکتی اس کے ان بقراط نما دولے شاہ کے چوہوں نے سوشل میڈیا پر ایک عجیب اودھم مچا رکھا ہے اور نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے طریقے بتاتے نظر آتے ہیں۔ مشہور کہاوت ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان ، یہ سارے عطائی ڈاکٹر اور عطائی لیڈر پورے سسٹم بلکہ پورے ملک کیلئے خطرہ جان بنے ہوئے ہیں ، جس طرح یہ دولے شاہ کے چوہے خود کو بقراط اور افلاطون سمجھتے ہیں، اسی طرح تحریک انصاف کے نئے سلیکٹڈ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو بھی الیکٹڈ سمجھا اور قرار دیا جا رہا ہے۔
نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ