پاکستان نے ایٹمی حملوں سے محفوظ رہنےکی ٹیکنالوجی حاصل کرلی
از : عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
آج دنیا بھر کو ایٹمی عدم پھیلاؤ اور اس کے خطرات کے خدشات لاحق ہیں اور ایسے میں اسلامی ایٹمی اثاثے تو دنیا بھر میں پھیلے اسلام دشمنوں کا پہلا ہدف ہیں لیکن شکر الحمداللہ پاک فوج اور عسکری شخصیات کو ان اثاثوں کی اہمیت اور قدر کا اندازہ ایک عام پاکستانی سے کہیں زیادہ ہے اسی لئے ان اثاثوں کی حفاظت کیلئے ہر وہ اقدام کیا جانا جروری خیال کیا جاتا ہے جس سے ان ایٹمی اثاثوں کو محفوظ سے محفوظ تر بنیا جاسکے اور ایسے اثاثوں کو دشمن اور حاسدین کی نطر سے محفوظ رکھنے کیلئے مختلف ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے ایک ٹیکنالوجی کا نام " گریٹ انڈر گراونڈ وال" ہے یعنی زیر زمین ایک ایسی دیوار بنانا جسے کوئی دشمن یاجوج ماجوج پار کر کے ان اسلامی اثاثوں تک نہ پہنچ سکے کہ یہ صرف پاکستان کا نہیں عالم اسلام کی حفاظت کی ضمانت اثاثے ہیں ، یہ دیوار پاکستان میں کہاں تعمیر کی جائے گی اور کون کرئے گا اس سے پہلے ہم دیکھ لیتے ہیں کہ ایٹمی اثاثوں کو محفوظ بنانے کیلئے کون کون سے طریق کار اپنائے جاتے ہیں ۔
دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ایٹمی ممالک نے جہاں اس مہلک ہتھیار کو استعمال کرنے کے طریقے سیکھے ہیں وہیں ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لیے خصوصی زون یا "نیوکلیر سیفٹی زون" بنانا ممکن ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ، مہنگا اور تکنیکی مہارت کا متقاضی عمل ہے۔ دنیا میں اس طرح کے اقدامات زیادہ تر ان علاقوں میں کئے گئے ہیں جہاں ایٹمی حملوں یا حادثات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان زونز کے ڈیزائن میں خصوصی زیر زمین پناہ گاہیں شامل ہوتی ہیں، جو تابکاری اور دھماکوں کے اثرات سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ان پناہ گاہوں کو مضبوط دھات اور کنکریٹ سے تعمیر کیا جاتا ہے اور ان میں ایئر فلٹریشن سسٹمز نصب کئے جاتے ہیں تاکہ تابکاری اور زہریلی گیسوں کو روکا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: چڑیا گھر کے بندروں نے عوام کو الو بنادیا
یہ زونز عام طور پر بڑے شہروں سے دور اور کم آبادی والے علاقوں میں بنائے جاتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر محفوظ جگہیں، جیسے پہاڑ یا زیر زمین سرنگیں، ان کے لیے زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہیں۔ تابکاری کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گہرائی اور خاص مواد (جیسے سیسہ یا لوہا) استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ تابکاری کی نگرانی کے لیے جدید مانیٹرنگ سسٹمز نصب کیے جاتے ہیں۔ ان زونز میں خوراک، پانی، ادویات اور توانائی کے ذخائر کا خاص انتظام کیا جاتا ہے اور وینٹیلیشن اور بجلی کے نظام کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
چین کے پاس ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لیے خصوصی زونز بنانے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ وہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو ایٹمی طاقت کے ساتھ جدید دفاعی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں۔ چین نے بڑے پیمانے پر زیر زمین سرنگیں اور فوجی کمپلیکس (جیسے "Great Underground Wall") تعمیر کیے ہیں جو تابکاری اور حملوں سے محفوظ رہنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ، چین نے جوہری بجلی گھروں اور زیر زمین شہری پناہ گاہوں کی تعمیر میں بھی مہارت حاصل کی ہے، جن میں ایئر فلٹریشن، وینٹیلیشن، اور تابکاری سے بچاؤ کے جدید نظام شامل ہیں۔ چین کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا دفاعی بجٹ رکھنے والا ملک ہے وہ اپنے شہریوں کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اسٹریٹیجک ڈیفنس سسٹمز اور ہنگامی ردعمل کے منصوبوں کے لیے وسائل فراہم کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: 10 سی جنگی جہاز اسلامی دنیا کو پاکستان کا تحفہ ، امریکہ کی ٹانگیں تو کانپیں گی
چین نے اپنے بڑے شہروں، جیسے بیجنگ اور شنگھائی، میں ایمرجنسی پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں جو جنگی یا قدرتی آفات کی صورت میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، شہریوں کو تربیت دینے کے لیے ہنگامی مشقیں اور آگاہی مہمات بھی جاری ہیں۔ تابکاری کے اثرات کو کم کرنے اور زہریلے مواد کو ہٹانے کے لیے چین کی سائنسی برادری جدید مانیٹرنگ سسٹمز اور روبوٹک ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتی ہے۔ چین کی موجودہ ٹیکنالوجی، وسائل، اور دفاعی حکمت عملی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے خصوصی زونز بنانے اور اپنے شہریوں اور فوجی تنصیبات کو محفوظ رکھنے میں نہ صرف مکمل صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس حوالے سے پہلے سے عملی اقدامات بھی کر چکا ہے ،ایٹمی ہتھیاروں کو خصوصی زونز میں محفوظ کیا جاتا ہے جنہیں انتہائی محفوظ، خفیہ اور تکنیکی طور پر مضبوط بنایا جاتا ہے۔ ان زونز کو "نیوکلیئر سیکیورٹی زونز" یا "نیوکلیئر سائلوز" کہا جاتا ہے، اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کو حادثات، حملوں، یا غیر مجاز رسائی سے بچانا ہوتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو اکثر زیر زمین بنکرز یا سائلوز میں محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ وہ فضائی یا میزائل حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ تنصیبات مضبوط کنکریٹ اور سٹیل سے بنی ہوتی ہیں اور دھماکوں یا تابکاری کے اثرات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کو ایسے دور دراز اور خفیہ مقامات پر رکھا جاتا ہے، جیسے پہاڑ، صحراء، یا جنگلات، تاکہ دشمن کی رسائی مشکل ہو۔ ان کے گرد سخت حفاظتی نظام، ڈیجیٹل سیکیورٹی، اور تابکاری کنٹرول کے لیے جدید نظام نصب کیے جاتے ہیں۔
ایٹمی میزائلوں کے لیے خاص طور پر نیوکلیئر سائلوز زمین کے اندر گہرائی میں تعمیر کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف ہتھیاروں کو محفوظ رکھتے ہیں بلکہ حملے کی صورت میں فوری طور پر میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہتھیاروں کو موبائل لانچرز (جیسے ٹرک یا سب میرین) پر بھی محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں زیادہ خفیہ رکھا جا سکے۔ چین، روس، اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کے پاس اس طرح کی صلاحیت موجود ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت حفاظتی پروٹوکول بنائے جاتے ہیں تاکہ کسی انسانی غلطی، حادثے یا قدرتی آفت کی صورت میں نقصان نہ ہو، اور ان کے ارد گرد درجہ حرارت اور نمی کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔
ممالک بین الاقوامی معاہدوں، جیسے امریکہ، چین، اور روس جیسے ممالک اپنے ہتھیاروں کو زیر زمین سائلوز، سب میرینز اور موبائل لانچرز میں محفوظ رکھتے ہیں۔ چین کے زیر زمین نیٹ ورکس، جیسے "Great Underground Wall"، اور روس کے سرد علاقوں میں زیر زمین بنکرز اس بات کی مثال ہیں۔ نتیجتاً، ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے زونز بنانا ہر ایٹمی طاقت کے لیے ضروری ہے تاکہ انہیں دشمن کے حملوں، حادثات یا غیر مجاز رسائی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ زونز دنیا کے سب سے محفوظ اور خفیہ مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔
گوادر میں چین کی جانب سے ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لیے کسی خصوصی زون کی تعمیر کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ گوادر میں چین کی سرمایہ کاری بنیادی طور پر بندرگاہ کی ترقی، تجارتی راہداریوں، اور اقتصادی زونز کے قیام پر مرکوز ہے، جن کا مقصد تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے خصوصی زونز عموماً عسکری مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں، اور ان کی تعمیر اور مقام کے بارے میں معلومات عام طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا، گوادر میں اس نوعیت کے کسی منصوبے کی موجودگی کے بارے میں کوئی عوامی معلومات تو دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ بلوچستان ہی پاکستان میں ایک ایسی محفوظ ایٹمی پناہ گاہ کے لیے موضوع ہے جہاں کے سنگلاخ پہاڑ اور سمندر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو گریٹ وال جیسی سہولت مہیا کر سکتا ہے بلوچستان میں امن دشمنوں کو جو بیرونی دشمنوں اور اندرونی غداروں کی مالی و اخلاقی حمایت حاصل ہے اُس کے پیچھے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے مستقبل میں گریٹ وال کا خوف بھی کار فرما ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر