چڑیا گھر کے بندروں نے عوام کو الو بنادیا 

از : عامر رضا خان

Jan 02, 2025 | 12:36:PM
چڑیا گھر کے بندروں نے عوام کو الو بنادیا 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

لاہور چڑیا گھر کا انتظام کیا بندروں نے سمبھال لیا ہے ، یقین نہیں آیا لیکن تحریر پوری پڑھنے کے بعد فیصلہ کیجئے گا قبل از تحریر کچھ نا کہیے گا مجھے کسی نامعلوم شاعر کا شعر یاد آرہا ہے ؎
اپنا اپنا سر بچالو دوستو 
ناریل ہیں بندروں کے ہاتھ میں 
لیکن یہاں ناریل نہیں پورے کا پورا چڑیا گھر ایسے افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے کہ شریف النفس آدمی کے لیے سر تو نہیں عزت بچانا ضرور مشکل ہوگیا ہے ،خبر ہے جو ہماری رپورٹر کومل اسلم نے دی ہے جس کے مطابق "سال نو کے پہلے ہی روز لاہور چڑیا گھر میں عام شہری کی انٹری مشکل ہوگئی ، ٹھیکیدارنے انٹری ٹکٹ 100روپے کی بجائے 300روپے کردی، شہریوں سے 100روپے انٹری کیساتھ 200روپے سانپ گھر کی ٹکٹ وصول کی جارہی ہے، ٹکٹ مہنگا ہونے پر شہریوں کی بڑی تعداد مایوس ہو کر واپس جانے لگی۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ  کسی کی مرضی ہے وہ سانپ ہاؤس دیکھے یہ نا دیکھے،زبردستی ٹکٹ لینا زیادتی ہے، انٹری ٹکٹ کےعلاوہ دیگرسہولتوں کی زبردستی ٹکٹ لینا زیادتی ہے۔
آپ ہمارے معاشرے کے فیملی تناظر میں دیکھیں تو پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ اگر چڑیا گھر جائے گا تو اسے صرف اینٹری کے لیے 1500 روپے درکار ہیں لیکن اس سے پہلے اسے گاڑی پارک کرنے کے لیے 100 اور موٹر سائیکل کے لیے 50  روپے بھی دینے ہیں چڑیا گھر میں اتنے پیسے دیکر جو بندر دیکھے جائیں گے وہ تو دیکھنے والوں کو الو ہی سمجھیں گے ۔

دنیا بھر میں چڑیا گھر اہم معلوماتی تفریح ہے شہروں میں رہنے والے جنگل کے جانوروں کو قریب سے دیکھنے اور اور اُن کی بود باش دیکھنے کے لیے چڑیا گھرں کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا مین سب سے قدیم اور مہنگا چڑیا گھر لندن زو ہے۔

یہ بھی پڑھیں : فضائی مسافروں کیلئے اہم خبر
لندن زو دنیا کے قدیم ترین سائنسی چڑیا گھروں میں سے ایک ہے، جہاں مختلف اقسام کے جانور، پرندے، مچھلیاں اور حشرات موجود ہیں۔ ٹکٹ کی قیمتیں عمر اور سیزن کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ بالغ افراد کے لیے ٹکٹ کی قیمت تقریباً £30 سے £35 تک ہو سکتی ہے، جبکہ بچوں کے لیے یہ قیمت کم ہوتی ہے مثال کے طور پر، اگر £1 کی قیمت 350 پاکستانی روپے ہو، تو بالغ افراد کے لیے ٹکٹ کی قیمت تقریباً 10,500 سے 12,250 پاکستانی روپے کے درمیان ہوگیلندن زو میں 700 سے زائد اقسام کے 20,000 سے زیادہ جانور موجود ہیں، جن میں ممالیہ، پرندے، رینگنے والے جانور، مچھلیاں اور حشرات شامل ہیں۔ یہ چڑیا گھر تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے بھی معروف ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
جبکہ لاہور چڑیا گھر، پاکستان کے قدیم ترین اور مشہور چڑیا گھروں میں سے ایک ہے، جو سیاحوں اور طلبہ کے لیے خاص دلچسپی کا مرکز ہے۔ یہاں جانوروں کی کل تعداد تقریباً 1400 سے زائد ہے، جن میں ممالیہ، پرندے، رینگنے والے جانور، مچھلیاں، اور حشرات شامل ہیں۔ ممالیہ جانوروں میں شیر، بنگال ٹائیگر، نیل گائے، اور بندر شامل ہیں، جبکہ پرندوں میں مور، شتر مرغ، طوطے، اور عقاب نمایاں ہیں۔ یہاں مگرمچھ، سانپ، اور کچھوے جیسے رینگنے والے جانور اور مختلف اقسام کی مچھلیاں بھی موجود ہیں، جو ایکویریم میں رکھی گئی ہیں۔ چڑیا گھر کا رقبہ تقریباً 25 ایکڑ پر محیط ہے اور یہ 1872 میں قائم ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ جنوبی ایشیا کے قدیم ترین چڑیا گھروں میں شمار ہوتا ہے۔

یہاں تعلیمی اور تفریحی مقاصد کے لیے معلوماتی بورڈز اور بچوں کے لیے خصوصی پروگرامز بھی منعقد کیے جاتے ہیں، جو اسے ایک مکمل تفریحی مقام بناتے ہیں، لیکن اب حکومت کی عدم توجیہی جیسے بنیادی مسلے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اسے ٹھیکے پر دے دیا جائے یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کیا کوئی محکمہ ٹھیکے دار کو بھی چیک کرئے گا کہ اُس نے کسطرح کی لوٹ مار شروع کر رکھی ہے انسان نما سانپ لوگوں کی جیبوں کو ڈس رہے ہیں اور انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ مزید سانپ دیکھنے کے لیے 200 روپے ادا کریں اگر نہیں کریں گے تو اندر بھی نہیں جاسکتے یہ سرا سر نا انصافی ہے جس کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب پر فرض ہے ، شہری حقوق کی تنظیموں کو "بائیکاٹ لاہور زو" نامی تحریک شروع کرنی چاہیے تاکہ اُن ٹھیکدار بندروں کی عقل ٹھکانے آئے جو عوام کو بلا وجہ لوٹ رہے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں : گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت (2)
یہ لوٹ مار صرف اینٹری ٹکٹ پر ہی نہیں ہے بلکہ زو کے باہر موجود پارکنگ پر کہ جہاں 100 روپے گاڑی اور 50 روپے بائیک کے وصول کیے جارہے ہیں  اور اندر کنٹین پر بھی جاری ہے جہاں درجہ سوم کی پانی بند بوتل 100 روپے اور جعلی کولڈ ڈرنک 100 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے دہی بھلے اور چاٹ کے نام پر زہر بیچا جارہا ہے پنجاب حکومت کے اس ظالمانہ اقدام سے سب سے ذیادہ نقصان تو اُن سرکاری سکولز کو ہوگا جہاں کے بچے تفریحی ٹور کے نام پر یہاں آتے تھے اب اگر انہیں آنا ہوگا تو کم از کم اُن کے پاس 1500 روپے فی کس چارج کیا جائے گا جو ایک کاریگر کی روزانہ کی تنخواہ سے بھی ذیادہ ہے حکومت اس ظالم ٹھیکدار کو فی الفور تبدیل کرئے ، لیکن کیا کیا جائے کہ اس ٹھیکدار کا سرپرست بھی کوئی حکومتی بندہ ہی ہوگا جو انسانوں کو الو بنا کر اسمبلی میں پہنچا اور اب اپنے کارندوں کے ذریعے مزید الو بنا رہا ہے۔