(24 نیوز ) جسٹس بابر ستار کی فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے اور ان کیخلاف سوشل میڈیا مہم چلانے پر توہین عدالت کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ پر عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے مسترد کر دی ۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں 3رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان بینچ میں شامل ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل عدالت میں پیش ہوئے اور وزارت دفاع کی رپورٹ پیش کی گئی ، عدالت نے رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر رپورٹ تو ایف آئی اے نے پیش کی تھی، وزارت دفاع کو رپورٹ دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی ۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کو کہاکہ جنھوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا انکا پتہ لگائیں، جو اصل لوگ ہیں ان کا تعین کریں ، ہم آرڈر کردینگے آپ اصل ذمہ داروں کا تعین کریں ، مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کیخلاف تحقیقات کریں ، آپ نے ان کا تعین کرنا ہے جنہوں نے جج کی فیملی کا ڈیٹا سب سے پہلے شیئر کیا، ہم اس حوالے سے ایک مناسب آرڈر بھی جاری کر دیں گے، جسٹس سردار اعجاز نے کہا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی روز 3مختلف کمپین چلائی گئیں؟جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کیخلاف تحقیقات کریں ، ایف آئی اے نے جواب دیا کہ 16 اکاؤنٹس کی نشاندھی کی گئی ہے، عدالت نے کہا کہ آپ کوئی سافٹ وئیر تجویز کردیں کہ جس سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تجزیہ فراہم کردیں ۔
وزارت دفاع کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کا کہنا تھاکہ اس رپورٹ میں بھی انہی ٹوئٹر ہینڈلز کا ذکر ہے جو پہلے بتائے ہیں، ایف آئی اے تفتیشی ایجنسی ہے وہ اس حوالے سے بہتر معاونت کرسکتا ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں پرائم انٹیلیجنس ایجنسی کی ایف آئی اے سے کم صلاحیت ہے کہ وہ تعین نہیں کرسکتی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ تکنیکی چیزیں ہیں ، عدالت نے کہا کہ کل کو ملک دشمن عناصر کسی کیخلاف توہین مذہب کا الزام عائد کرتی ہیں تو کیا آئی ایس آئی اصل ملزمان کی نشاندھی کرسکتی ہے؟ ہم پوچھ رہے ہیں ایجنسی کے پاس صلاحیت ہے یا نہیں ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہاکہ یہ احساس معاملہ ہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ پرائم انٹیلی جنس ایجنسی سے بہتر ہے ، عدالت
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ پرائم انٹیلی جنس ایجنسی سے بہت بہتر ہے، جسٹس کیانی نے سوا ل کیا کہ کیا ایجنسیوں کے پاس ان اکاؤنٹس کو ٹریس کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں؟ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے پاس کتنے ٹیکنیکل ایکسپرٹس ہیں؟ ایف آئی اے کے پاس ٹیکنیکل ایکسپرٹس کی تعداد کیا ہے؟ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کے پاس 300ٹیکنیکل ایکسپرٹس ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اس کیس میں ڈائریکٹر لیگل کا کیا کام ہے؟ کسی ٹیکنیکل آدمی کو بھجواتے،
آپ سمجھتے ہیں انفارمیشن پبلک نہیں ہوسکتی تو عدالت کو سربمہر لفافے میں بتا دیں ۔
وزارت دفاع نے مایوس کیا، ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان
کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا گیا کہ آپ بتائیں گے کہ فائیو جی وار فئیر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ؟ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے، ایف آئی اے نے اس رپورٹ سے بہت بہتر رپورٹ جمع کروائی ہے ، ہم سپیرئیر ایجنسی سے ویسا ہی کام کی توقع کررہے تھے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایف آئی اے نے واقعی بہت کام کیا ہے، ایف آئی اے کے پاس بہت ورک لوڈ ہے، ایف آئی اے نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس 90 ہزار سے زائد انکوائری زیر التوا ہیں، سوال و جواب کے بعد عدالت نے وزارت دفاع کو دوبارہ رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔
یہ بھی پڑھیں : سائفر کیس فیصلہ ، چیئر مین پی ٹی آئی کا ردعمل بھی آگیا