خیبرپختونخوا حکومت کے پی آئی اے خریدنے کی پیشکش نے سوالات کھڑے کردیے

Nov 03, 2024 | 12:08:PM
خیبرپختونخوا حکومت کے پی آئی اے خریدنے کی پیشکش نے سوالات کھڑے کردیے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو خریدنے کی پیشکش سے اس بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ آیا صوبائی حکومت قومی ایئرلائن کو خریدنے میں سنجیدہ ہے یا پھر اس اقدام سے وفاقی حکومت کی "ٹرولنگ" کی جارہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق  جمعہ کو خیبرپختونخوا بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ (کے پی بی او آئی ٹی) نے وفاقی وزیر نجکاری علیم خان کو ایک خط بھیجا جس میں قومی ایئر لائن کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا بلیو ورلڈ کنسورشیم کی جانب سے 10 ارب روپے کی موجودہ پیشکش سے زائد بولی لگانے کے لیے تیار ہے۔

پی آئی اے میں 4 دہائیوں تک خدمات انجام دینے والے ایوی ایشن کے ماہر قیصر انصاری کے مطابق قومی ایئرلائن کی اصل قیمت 60 ارب سے 65 ارب روپے کے درمیان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں پروفیشنل مینجمنٹ تبدیلی لاسکتی ہے، ماضی کی قیادت زیادہ تر ریٹائرڈ ایئر مارشل کا تقرر کرتی رہی ہیں جن کے پاس کمرشل ایوی ایشن مینجمنٹ کے لیے درکار صلاحیت کی کمی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لڑاکا طیارے اڑانے اور کمرشل ایئر لائن کا انتظام چلانے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، پی آئی اے کے برعکس پاکستان میں کئی نجی ایئرلائنز منافع بخش طریقے سے کام کر رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی ایئرلائن کے لیے اس طرح کا اقدام ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں : وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا زیرتعمیر پی آئی سی ٹو کا دورہ,جلد فنکشنل کرنے کی ہدایت

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ صوبے کی جانب سے لگائی جانے والی بولی حقیقی ہے اور یہ سیاسی محرکات پر مبنی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایئر لائن کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں، خیبرپختونخوا حکومت پی آئی اے کو پیشہ ورانہ طور پر چلانے کا ارادہ رکھتی ہے،ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے قومی ایئرلائن کو خریدنے کے لیے کوئی اندازہ نہیں لگایا بلکہ اس تجویز کے مالی اور لاجسٹک پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر بولی کا جائزہ لے، اگر خیبرپختونخوا حکومت کی پیشکش پر منصفانہ طور پر غور کیا جاتا ہے تو اسے مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔