کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا خطرناک انکشاف

Nov 03, 2024 | 14:37:PM
کیا ہم غذا کے نام پر پلاسٹک کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا خطرناک انکشاف
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) موجودہ دور میں ہر چیز میں پلاسٹک کا استعمال ضرورت سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور بات اس حد تک جا چکی ہے کہ ہم اپنی غذا کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے پلاسٹک کو جسم میں داخل کررہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کرّہِ ارض کے ہر حصے میں سرایت کرچکے ہیں۔

یہ ذرات براعظم انٹارکٹکا کی سمندری برف اور اس سمندر کی گہری کھائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں اور دنیا بھر میں پینے کے پانی میں سرایت کرچکے ہیں۔

ماہرین صحت کی ایک بڑی تعداد مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے جو انسانی جسم کے تقریباً تمام اعضاء میں پائے گئے ہیں۔

پلاسٹک پھیپھڑوں سے لے کر گردوں اور پھر خون تک میں پایا گیا ہے، سائنس دان ابھی تک صحت پر ان کے اثرات کے بارے میں یقینی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔

پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتیٰ کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے، یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 70 ہزارسے زائد افراد نے شادی کی پیشکش کی معروف اداکارہ کادعویٰ

ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

مائیکرو پلاسٹک کے ذرات (5 ملی میٹر سے کم) ہوا، پانی، خوراک، پیکیجنگ، مصنوعی ٹیکسٹائل، ٹائر اور کاسمیٹکس میں پائے گئے ہیں۔ ہر روز انسان سانس لیتے ہوئے یا دیگر مادوں کے رابطے میں آنے کے بعد ان ذرات کو نگل رہے ہیں۔

لی مینز انسٹی ٹیوٹ برائے مالیکیولز اینڈ میٹریلز کے محقق فابین لیگارڈ نے فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران کہا ہے کہ 2024 کے شخص کے جسم کے تقریباً تمام حصوں میں پلاسٹک کا مواد موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ توقع کی جارہی ہے کہ 2040 میں پیدا ہونے والے بچوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی ابتر ہوجائے گی۔ حالیہ برسوں میں سائنسدانوں نے پھیپھڑوں، دل، جگر، گردوں، اور یہاں تک کہ نال اور خون میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات دیکھے ہیں۔