قصہ بیان کرنے والے سنیئر صحافی ایثار رانا ہیں جنہوں نے اپنی عارف علوی سابق صدر مملکت پاکستان کے ساتھ ملاقات کا قصہ بیان کیا ہے، اس ملاقات کا احوال کیا ہے اور پھینٹی والا کیا معاملہ ہے؟یہ بھی آپ کو بتانا ہے لیکن اس سے پہلے یہ پڑھیں کہ بھارت میں کچھ عرصہ قبل ایک ایسا گینگ پکڑا گیا جو یتیم بچے بچیوں کو گود لیتا اور پھر ان سے غلاموں کیطرح کام لیتا تھا ، طریقہ واردات بڑا منفرد تھا یہ مختلف جوڑوں پر مشتمل گینگ تھا جو دور دراز کے یتیم خانوں سے بچے اور بچیاں گود لیتے جو چھوٹی عمر کے ہوتے انہیں پالتے اور جو ذرا سمجھدار ہوتے تو انہیں مختلف گھروں ، فیکٹریوں میں مہنگے داموں کام کے لیے بیچ دیتے یا ایڈوانس کے نام پر رقم اینٹھ لیتے ، اور لڑکیوں کو "دھندے" پر مجبور کرتے ان کے ذریعے لوگوں کی فلمیں بناتے اور پھر انہیں بلیک میل کرتے یہ گروہ چائلڈ پورنو گرافی اور ڈارک ویب پر یہ فلمیں بیچتے لیکن پھر ایک روز پکڑے گئے ، ایسے جوڑوں کے کالے کرتوت سامنے آئے تو میڈیا نے انہیں یتم خور گینگ کا نام دیا ، ان افراد سے جب انٹرویو کیے گئے تو انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ ان بچوں کواپنے بڑھاپے کے دنوں کے لیے تیار کر رہے تھے ان کے ذریعے وہ اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے تھے ۔
یہ تھا بھارت لیکن پاکستان میں بھی ایک ایسا جوڑا گذرا ہے جنہوں نے یتیم گود لیے اور انہیں اپنے مستقبل کے لیے تیار کیا لیکن یہاں یتیم خانوں کا نہیں سیاسی جماعتوں کا انتخاب کیا گیا ، بات لمبی ہوجائے گی پہلے سُن لیں یہ جوڑا جسے فیض قمر سمجھ لیں نے مختلف سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور سابق صدر مشرف کے نمک خوارانِ گیٹ نمبر 6 کے یتیموں ، بیواوں کو اکھٹا کیا ان کو اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا اور پھر انہیں کُھلا چھوڑ دیا ۔
مجھے یہ خیال کبھی نا آتا لیکن بہت ہی سنیئر صحافی جناب ایثار رانا نے اخبار کی ایک کٹنگ ارسال کی جس میں انہوں نے تجزیہ کیا تھا وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سابق صدرریاست پاکستان عارف علوی سے سوال کیا'ایوان صدر میں قید " کے دوران آپ کیسا محسوس کرتے تھے، مجھے امید تھی کہ وہ کہیں گے (إِیّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیّاکَ نَسْتَعینُ ) میں ایک بااختیار آزاد سربراہ مملکت تھا ، "لیکن دل ڈوب گیا جب انہوں نے کہا مجھے تو یہاں تک ڈر تھا کہ کہیں ایوان صدر میں مجھے پھینٹی نہ پڑ جائے ۔ جنرل باجو ، جنرل فیض ان کے ساتھ چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے رہے ،وہ اتنے بے بس تھے تو استعفا کیوں نہیں دے دیا؟ ایک سابق صدر کے ساتھ ملاقات ایک اعزاز کی بات ہوسکتی ہے لیکن اس ملاقات نے مزید ڈیریشن میں دھکیل دیا انہیں ان کی مرضی سے نا آنے دیا جاتا تھا نا جانے حتیٰ کہ ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہوا جیسے باجوہ اور فیض جب چاہے باز پرس کرلے ،لندن پلان، اس پر عمران خان کا پیغام علوی صاحب کی پیغام رسانی وہ بتا رہے تھے جیسے یہ ملک چوبیس کروڑ عوام کا نہیں گڈے گڈی کا کھیل ہے ، آئین و انصاف جیسے جوتوں کے اندر جرابوں کی جگہ پہننے کی کوئی چیز ہے، جیسے ریاست کے ذمہ دار میٹرک میں پڑھنے والے کھلنڈرے بچے ہوں ،جیسے ہم لوگ جمہوریت کے نام پر گروی رکھی ہوئی نسل ہوں " ۔
ضرورپڑھیں:بیکری بوائے کی سپریم کورٹ میں انٹری ، چیف جسٹس کو دھمکی لگادی
اس پوری تجزیہ نما خبر پڑھ کر مجھے ان بے چاروں پر ترس آتا ہے جو خود کو انقلابی اور اپنے لیڈران کو سوپر انقلابی سمجھتے ہیں یہ سب مختلف جماعتوں بشمول ، پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم ، فنکشنل لیگ ، جے یو آئی مسلم لیگ ن اور مشرف کو اپنا بڑا سمجھنے اور اس کے جانے کے بعد ہونے والے سیاسی یتیم تھے، جنہیں کفالت کے نام پر اٹھایا گیا طریقہ واردات ویسا ہی تھا جیسا بھارتی یتیم خور گینگ کا تھا ، میڈیائی یتیموں کو چینلز پر بھاری تنخواہوں پر رکھوایا گیا ،یو ٹیوب چینل بنوائے گئے خواتین کے ساتھ کلپ بنائے گئے، جو ابھی بھی وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتے ہیں ، سیاسی یتیموں کو ایوان صدر ، ایوان وزیر اعظم تک پہنچایا گیا ، وزارتیں دی گئیں مقصد صرف ایک تھا کہ کسی طرح قمر و فیض جوڑا اپنے مستقبل کو محفوظ بنا لے لیکن ہوا کیا دونوں صرف اپنے اپنے مستقبل کا سوچنے لگے اور جھگڑا یہاں تک بڑھ گیا کہ مبینہ طور پر اصطلاحاً طلاق ہوگئی۔ ایک کو ایکسٹینشن اور دوسرے کو تعیناتی درکار تھی اور اب ایک جیل میں اور دوسرا باہر ’اکلاپے‘ کی سزا کاٹ رہا ہے ، سیاسی یتیم در بدر ہیں کچھ بک چکے، کچھ بکنے کو تیار ہیں لیکن اب خریدار کوئی نہیں ہے ، عارف علوی کا یہ اعتراف ہمیں سیاسی طور مزید عدم تحفظ کا شکار بنارہا ہے اگر ایوان صدر میں بیٹھا صدر اور وہ بھی تبدیلی کی آواز لگانے والا بھی یوں قید تھا کہ اسے ڈر ہوتا تھا کہ پھینٹی لگ جائے گی تو سوچئے ایوان وزیر اعظم اور وزراء کے گھروں میں کیا کیفیت ہوگی؟ کیا یہ تھی وہ تبدیلی جس کو جنرل پاشا و ہمنوا نے ترتیب دیا اور سیاسی بوزنوں کا ؟
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر