مارگلہ نیشنل پارک سے سرگرمیاں ختم کرنیکا کیس ، چیف جسٹس اور نعیم بخاری میں تلخ جملوں کا تبادلہ

Sep 03, 2024 | 18:59:PM

(24نیوز)مارگلہ نیشنل پارک سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کے کیس میں مونال ریسٹورنٹ سمیت دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل نعیم بخاری میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے تو تمام فریقین کی رضامندی سے فیصلہ دیا، رضامندی سے  ہی 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کا کہا گیا، پھر نظرثانی کس بات کی۔

مونال ریسٹورنٹ کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ رضامندی سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کا نہیں کہا، مجبوری میں بات کی تھی، ہمارے سامنے 2 آپشن تھے کہ یا تو خود سے ریسٹورنٹ ختم کریں ورنہ گرا دیئے جائیں گے۔نعیم بخاری نے کہا کہ میرے مؤکل ڈاکٹر محمد امجد 66 فیصد شیئر ہولڈر ہیں جن کو سنا ہی نہیں گیا، سپریم کورٹ نے جب فیصلہ دیا تو اس وقت وہ ملک سے باہر تھے۔ ماضی میں ایف آئی اے ریسٹورنٹ مالکان کے خلاف تحقیقات کرچکی، تحقیقات میں پتہ چلا  کہ مالکان نے کوئی جرم نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا ، مسٹر بخاری آر یو سیریس، ایف آئی اے کا اس سے کیا کام، کئی بار لوگ اپنے خلاف خود بھی کیس کروا لیتے ہیں، لائسنس کی تجدید نہ ہونے پر ایف آئی اے سے تحقیقات کروا لیں کہ کوئی جرم نہیں ہوا، آپ ریاست سے جو سروسز لیتے رہے میں اس سے متاثر ہوں، ایف آئی اے کا اس سارے معاملے پر کیا اختیار ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ میرے ملک میں ایسا کئی بار ہوا کہ جن کا اختیار نہیں تھا، وہ بہت کچھ کرتے رہے، 1954ء میں کیا ہوتا رہا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے  کہ ہماری پیدائش سے پہلے کے واقعات بتا کر ہم پر انگلی نہ اٹھائیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ آپ آواز اونچی کرکے سمجھتے ہیں میں ڈر جاؤں گا، میں اونچی آواز سے ڈرنے والا نہیں، آپ نے خود بھٹو ریفرنس میں لکھا ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، ’بخاری صاحب! چلیں ،ہم نے اپنی غلطیاں مان لیں ناں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، نیشنل پارک میں جانوروں کے حقوق ہیں، ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود تھا پھر بھی آپ کمرشل سرگرمیاں کرتے رہے، آپ قوانین کی خلاف ورزی میں ریسٹورنٹ چلاتے رہے۔نعیم بخاری نے بتایا کہ لائسنس موجود تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پڑھیں ذرا ، وہ 11 ہزار روپے سالانہ فیس والا لائسنس تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ 1999 میں 11 ہزار کرایہ تھا جو بعد میں بڑھا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:ستمبر میں پاکستان کو بڑی خوشخبری ملنے کا امکان ،بڑا دعویٰ سامنے آ گیا

مزیدخبریں