(ویب ڈیسکس) نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی (NIPP) نے ایک گول میز مباحثے کا انعقاد کیا، جس میں پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی اہم ضرورت پر گفتگو کی گئی.
کانفرنس کا آغاز NIPP کے ڈین ڈاکٹر نوید الٰہی نے کیا، ریکٹر NSPP، ڈاکٹر اعجاز منیر نے حاضرین کا خیرمقدم کیا اور ریگولیٹری اداروں کے ساتھ حکومتی اتحاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی، کلیدی مقررین میں ڈاکٹر فرید ظفر اور ڈاکٹر تیمور رحمان، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز شامل تھے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ڈیجیٹل میڈیا کی چیئرپرسن ڈاکٹر سویرا شامی، روزنامہ سرزمین کے چیف ایڈیٹر صفدر علی خان اور محمد فاروق مظہر، ڈائریکٹر جنرل NIM، لاہور بھی مباحثے کے مقررین میں شامل تھے۔
NIPP کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر علی عباس نے ایک تحقیقی تجزیہ پیش کیا، جس میں بے لگام سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والے مسائل بشمول اس کے معاشی، سماجی اور سیاسی نتائج پر روشنی ڈالی،
ڈاکٹر فرید ظفر نے سوشل میڈیا الگورتھم کو کنٹرول کرنے کی پیچیدگیوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان الگورتھم کو سمجھنا موثر ریگولیشن کے لیے بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر تیمور رحمان نے میڈیا کی تعلیم اور تربیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روایتی ریگولیٹری طریقے ڈیجیٹل کمیونیکیشن کی متحرک نوعیت کے خلاف موثر نہیں ہو سکتے.
یہ بھی پڑھیں : سموگ کی صورتحال مزید بگڑنے کا خدشہ، محکمہ ماحولیات کا ریڈ الرٹ جاری
ڈاکٹر سویرا شامی نے آزادی اظہار کو برقرار رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کی وکالت کرتے ہوئے ضابطے اور کنٹرول کے درمیان فرق کرنے کی اہم ضرورت پر روشنی ڈالی۔ فاروق مظہر نے حکومت کی موجودہ صلاحیت کو تسلیم کیا لیکن سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مزید جارحانہ اقدام کرنے پر زور دیا۔
دریں اثناعثمان شامی نے غلط معلومات اور معتبر معلومات کے درمیان فرق کرنے اور دونوں تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کی اہمیت کی نشاندہی کی۔نگہت داد نے طویل مدتی استحکام اور نفاذ کو موثر اور یقینی بنانے کے لیے ریگولیٹری عمل میں شامل اہلکاروں کی مدت ملازمت کو مستقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
گول میز کانفرنس میں شامل ماہرین شعبہ تعلیم، پالیسی سازوں اورمیڈیا کے نمائندگان کی بحث کا مقصد بے لگام سوشل میڈیا کی وجہ سے اٹھنے والے گھمبیر اور پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کی حکمت عملی کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔