جس گاڑی کا ایک پہیہ ٹریکٹر والا ہو، دوسرا کار والا، تیسرا ٹرالر والا اور چوتھا رکشے والا، اس پر سفر کرنے والوں کی حالت کیا ہو گی؟ یہ جاننے کیلئے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو دیکھ لیجیئے، پاکستان کے مخصوص محل وقوع یا جیو سٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے یہ تاریخ کا ستم ہے کہ ہمارا یہ خطہ مختلف فاتحین اور حملہ آوروں کی تاریخی گزر گاہ رہا ہے، کبھی سکندر اعظم نے یہاں سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی کوشش کی تو کبھی مغرب اور شمال مغرب سے آنیوالے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے فاتحین نے موجودہ پاکستان پر مشتمل خطے کو اپنی گزر گاہ بنایا، پچھلی صدی سے جب تاریخ کا پہیہ الٹا گھومنا شروع ہوا تو حملہ آوروں کا رخ کبھی شمال سے جنوب اور کبھی مشرق سے مغرب کی طرف ہونے لگا، پہلے تاج برطانیہ نے افغانستان میں طویل جنگ لڑی ، پھر روس اور امریکہ کے عالمی میدان جنگ کا دنگل یہاں برپا ہوا اور آخری جنگ یہاں امریکہ و نیٹو ممالک نے لڑی، پاکستان کو ہر بار فرنٹ لائن سٹیٹ والا اپنا تاریخی کردار نبھانا پڑا، تاریخ دان اسے جغرافیے کا عذاب بھی کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے آغاز سے ہی یہ طے ہو گیا تھا کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہو گی اور افواج پاکستان قومی سلامتی کے ضامن ادارے کی ذمے داریاں نبھائیں گی۔
دنیا میں طاقت کے توازن کے حوالے سے اپنی عالمی ذمےداریاں نبھانا ہمارے خطے اور خاص طور پر پاکستان کی مجبوری ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اپنا یہ کردار نبھانا ہے، اس تناظر میں افواج پاکستان کی ملکی و ریاستی معاملات میں کلیدی اہمیت ہے لیکن 1973ء کے آئین میں آئین سازوں نےکچھ فیصلے ان زمینی حقائق کے تناظر میں نہ کیئے جس کی وجہ سے ملک مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا،حکومت و ریاست کے سربراہوں کی مدت عہدہ 5 سال رکھی گئی اور آرمی چیف سمیت فوجی سربراہان کی مدت عہدہ 3 سال، اس فرق کی وجہ سے ہر نومنتخب حکومت اسی تنازع کی بھینٹ چڑھتی رہی کہ نیا آرمی چیف کون ہو گا یا نئے چیف کو ایکسٹینشن ملے گی یا نہیں؟ اس تنازع کا ایک ہی حل تھا اور یہ کہ گاڑی کے تمام پہیوں کا سائز یا مدت عہدہ برابر کی جائے ۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی گزشتہ روز تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کرلئے اور قائم قام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے ان پر دستخط کر کے ملکی عدم استحکام کی اس جڑ کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنے کا عمل مکمل کر دیا،انتہائی دوررس اہمیت کی حامل یہ قانون سازی پاکستان میں عدل و انصاف اور قومی سلامتی کے حوالے سے ایک ناگزیر ضرورت تھی جو آخر کار پوری ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ 2019 میں جب پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانونی تشنگی کا معاملہ اچانک ابھر کر سامنے آیا تو نومبر 2019 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کے سلسلے میں 6 ماہ کا وقت دیدیا ، ان دنوں چونکہ معاملہ فوری نوعیت کا تھا اسلئے افراتفری میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا گیا اور درپیش فوری ایشو کے حل کیلئے معاملہ آگے بڑھا لیکن اب چونکہ ایسا کوئی فوری ایشو درپیش نہیں تھا،اس لئے اتحادی حکومت نے انتہائی اطمینان سے اس حوالے سے اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے آرمی ایکٹ اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کر لیئے،اسلئے اگر یہ کہا جائے کہ 2019 میں سپریم کورٹ نے جو حکم دیا تھا اس پر عملدرآمد کا حتمی مرحلہ آج مکمل ہو گیا تو بے جانہ ہوگا۔
دنیا کے تمام ممالک میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت ان ممالک کی عالمی دفاعی ذمے داریوں ، جیو سٹریٹجک پوزیشن اور درپیش چیلنجز کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے نظام ہائے حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس حوالے سے رنگا رنگی نمایاں ہے جسے اس معاملے کا حسن بھی قرار دیا جا سکتا ہے، پاکستان میں بھی عرصہ دراز سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا تھا کہ مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت بھی سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت کی مدت عہدہ سے ہم آہنگ کی جائےتاکہ سسٹم کے تمام اہم ترین پہیئے سائز میں ایک جیسے ہوں اور حکومت و ریاست کی گاڑی پرسکون انداز میں چلتی رہے۔
مدت عہدہ کے حوالے سے یہ ہم آہنگی پورے سسٹم کیلئے مسلسل غیر یقینی کی دلدل سے نکل کر سیاسی، معاشی اور دفاعی ہر حوالے سے مکمل اور جامع استحکام کی منزل حاصل کرنے کا راستہ ہے اور باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ اس راستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، اس تاریخی پیش رفت پر ہر طرف سے داد و تحسین اور اظہارِ اطمینان کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں,روایتی اپوزیشن کے تحت تھوڑا بہت شور مچانے والے بھی سرگرم ہیں لیکن یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر اختلاف رائے ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
امریکہ میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت عہدہ 4 سال ہے، برطانیہ میں کسی فوجی منصب کی مدت 3 سال ہے تو کسی کی 4 سال، بھارت میں فوجی سربراہان 3 سال کیلئے جبکہ چین میں 5 سال کیلئے تعینات کئے جاتے ہیں، فرانس میں سروسز چیف کی مدت ملازمت 4 سال جبکہ جرمنی میں 3 سے 5 سال تک ہے،آسٹریلیا میں تینوں مسلح افواج کے سربراہ 4 سال کیلئے مقرر کئے جاتے ہیں جبکہ روس میں سروسز چیفس کا تقرر غیر معینہ مدت کیلئے کیا جاتا ہے، اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو پاکستان میں فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنا انتہائی مناسب اور قابل تحسین فیصلہ ہے ۔
وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناءاللہ نے اس حوالے سے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے کہ آرمی ایکٹ میں نئی ترمیم سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 2 سال کا اضافہ نہیں بلکہ عملی طور پر ایک سال کی کمی ہوگئی ہے کیونکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک ایک ٹرم کی توسیع دیئے جانے کے بعد یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ ہر نیا آرمی چیف 6سال کیلئے آئے گا ،ایک اور پہلو اس معاملے کا قابل غور ہے، اور وہ یہ ہے کہ دوست ملک چین پچھلے کئی برسوں سے بار بار حکومت و ریاست پاکستان کی توجہ دلا رہا تھا کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جائے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد پاکستان اور چین میں فوجی سربراہان کی مدت ملازمت برابر ہو گئی ہیں ، یہ ہم آہنگی اتفاقیہ ہے یا کسی لیول پر دیئے گئے صائب مشورے کا شاخسانہ ؟ اس حوالے سے ابھی یقین کے ساتھ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن جیسا کہ حدیث مبارکہ میں حکم ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں استحکام کیلئے اگر چین کے تجربے یا مشورے سے علم حاصل کیا گیا ہے تو یہ ایکٹ بہت بابرکت بھی ثابت ہو گا۔انشاءاللہ
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سونے کا پہاڑ دریافت ؟ اب ہر پاکستانی امیر ہوجائے گا