حکومت بمقابلہ جماعت اسلامی:حافظ نعیم مراد پاکرلوٹیں گے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اظہر تھراج)جماعت اسلامی کے دھرنے،احتجاج حکومت کیلئے کڑا امتحان بن گیا،جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے حکومت کیلئے مشکل بڑھتی جارہی ہے مگر جماعت اسلامی کی تحریک سست روی کا شکار ہے،کیا حافظ نعیم الرحمان مطلوبہ نتائج حاصل کر پائیں گے یا نامراد واپس لوٹیں گے؟
دیکھا جائے تو بجلی کی بڑھتی قیمتوں نے اور شاید کسی حد تک جماعت اسلامی کے دھرنے نے حکومت کو بڑے امتحان میں ڈالا ہوا ہےاور دوسری جانب پاکستان چین سے 15 ارب ڈالر کے توانائی قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے بات چیت بھی کررہا ہے اور واقفان حال کے مطابق حکومت پر اِس حوالے سے بھی دباؤ ہے،اب بظاہر یہ تینوں عوامل حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف اِس امتحان سے نکلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں،ابھی کچھ روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے پاور سیکٹر اور ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالات اُٹھائے تھے ۔اور اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر میں اصلاحات کی تیاریوں میں ہے۔
اب حکومت نے پاور سیکٹر کی کشتی پار لگانے کیلئے اسٹرکچرل اصلاحات کے نفاذ کیلئے 8 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے۔وفاقی وزیر بجلی اور پانی اویس احمد خان لغاری کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دینے کا مقصد پاور سیکٹر کا مالی بوجھ کم کرنا، ایک مؤثر اور پائیدار مسابقتی پاور مارکیٹ کا قیام ممکن بنانا ہے،اعلامیے کے مطابق ٹاسک فورس اپنے امور انجام دینے کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر سے کسی بھی ماہر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہوگی، ٹاسک فورس مقامی یا بین الاقوامی مشاورتی فرموں، بینکرز، قانونی مشیروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرموں یا کسی دوسری تنظیم یا فرد سے ریکارڈ اور معلومات یا مدد حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔
پاور سیکٹر میں اسٹرکچرل ریفارمز کے ٹی او آرز بھی دیے گئے ہیں، ٹاسک فورس پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل لحاظ سے عملی طور پر پائیدار بنانے کے لیے اقدامات اور سفارشات بھی دے سکے گی،ٹاسک فورس کے مینڈیٹ میں صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لینا اور تجویز کرنا بھی شامل، بعض پلانٹس بند کرنا اور مناسب سمجھنے پر دیگر ضروری اقدامات کرنا بھی ٹاسک فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ٹاسک فورس کے کام میں ملک میں مختلف آئی پی پیز کے سیٹ اپ لاگت سے متعلق معاملات کا جائزہ لینا اور ان کو درست کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا طریقہ تجویز کرنے کے لیے غلط طریقوں، طریقہ کار کی کمزوریوں اور ریگولیٹری خلا کی نشان دہی کرنا بھی شامل ہے۔آئی پی پیز کے مختلف پیرامیٹرز، شرائط و ضوابط کے ساتھ ساتھ تعمیل کا جائزہ لینا بھی ٹاسک فورس کا منڈیٹ ہوگا، متعلقہ سرکاری ایجنسیوں، اداروں کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے اور توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ اسٹاک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا بھی ٹاسک فورس کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹاسک فورس کا کردار حقائق کی تلاش تک محدود نہیں ہوگا اور ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بھی ذمہ دار ہوگی تاہم وفاقی حکومت ٹاسک فورس کے لیے بجٹ مختص کرنے سمیت مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ٹاسک فورس قیام کے ایک ماہ کے اندر عمل درآمد پلان کے ساتھ سفارشات مرتب کرکے وزیر اعظم کو پیش کرنے کی پابند ہوگی، پاور ڈویژن ٹاسک فورس کو نوٹیفائی کرے گا۔
اب اِس میں کوئی شک نہیں پاور سیکٹر زبوں حالی کا شکار ہے اور اِس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ابھی حال ہی میں پاور سیکٹر کی مالی بے ضابطگیوں سے متعلق ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں ۔آڈیٹر جنرل نے آڈٹ رپورٹ 2023-24 میں بےضابطگیوں کی نشاندہی کردی ہے۔خبر کے مطابق پاورسیکٹر میں 5ہزار273 ارب روپےکی بےضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن، ڈسکوز اور نیپرا میں بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی، پاور سیکٹر میں مختلف قسم کی بے ضابطگیوں، فراڈ اورغبن کی نشاندہی بھی کی گئی، سی پی پی اے میں 2 ہزار 735 ارب روپے کی بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی، این ٹی ڈی سی 228 ارب، نیپرا میں 184 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی۔ رپورٹ میں فیسکو 40 ارب، گیپکو 66 اور حیسکو میں 83 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی، سیپکو میں 221 ارب،لیسکو میں 110 ارب، پیسکو میں 163 ارب اور ٹیسکو میں 17 ارب روپےکی بےضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی، جام شورو پاور جنریشن کمپنی میں 68 ارب روپے کی بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔اب دیکھا جائے تو پاور ڈویژن اِس وقت تنزلی کا شکار ہے جس میں فوری اور مؤثر اصلاحات کرنا ناگزیر ہے۔
جماعت اسلامی کا احتجاج طویل ہوتا جارہا ہے ،حکومت سنجیدگی سے مطالبات پر مذاکرات نہیں کرتی تو عوامی دھرنا حکومت کیلئے مشکلات کھڑا کرسکتا ہے،دھرنے والوں کے حوصلے بلند ہیں اور ان حوصلوں کو مزید تقویت بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی کامیاب تحریک کی صورت میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے سے بھی ملی ہے،پنڈی اور اسلام آباد کے بیچ میں بیٹھے جماعت اسلامی کے کارکن جس طرف بھی رخ کریں گے لگتا ایسے ہے کہ نتائج لے کر ہی واپس لوٹیں گے۔