(وقاص عظیم) گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کی وجہ سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے، موسم سرما میں گندم مہنگی ہونے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال 26.2 ارب ڈالرز کا قرض ادا کرنا ہے، رواں سال 12.3 ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور ہوجائے گا، وزیر خزانہ کہ چکے ہیں کہ یہ قرض رول اوور ہوجائیں گے، باقی 4 ارب ڈالرز کا کمرشل قرضہ ہے جو ادا کردیا جائے گا، کمرشل قرضہ ادا کرنے کے بعد واپس مل جائے گا، رواں سال 26 ارب میں سے باقی 10 ارب ڈالرز کا قرضہ ادا کرنا ہوگا، رواں مالی سال ڈیڑھ ارب ڈالرز کا قرضہ واپس کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 8.5 ارب ڈالرز کا مزید قرضہ ادا کرنا ہے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9.1 ارب ڈالرز ہوچکے ہیں، قرضے ادا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کافی ہیں، اس وقت مہنگائی 11.5 فیصد پر آ چکی ہے، رواں سال مہنگائی 13.5 فیصد تک رہ سکتی ہے، بجٹ اقدامات اور توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے، موسم سرما میں گندم کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امپورٹڈ گاڑیوں کی بنا آن لائن ویری فیکیشن رجسٹریشن پر پابندی عائد
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بات کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کی وجہ سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے، مہنگائی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، آئندہ سال مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد تک رہے گی، سخت مانیٹری پالیسی کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں، 2022 میں 17.5 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیا گیا، پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نا قابل برداشت تھا، بین الاقوامی کمپنیوں کے پرافٹ اور ڈیویڈنڈز کو کلیئر کردیا گیا ہے، درآمدات پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ڈالر کی قیمت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان ڈالر کے شرح تبادلہ کا فرق کم کردیا گیا ہے، حوالہ اور ہنڈی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، پاکستان کا غیر ملکی قرضہ 130 ارب ڈالرز ہے، گذشتہ برس 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگیوں پر خرچ کیے گئے، 9.75 ٹریلین روپے سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہوں گے، ایکسچینج ریٹ اور پالیسی ریٹ کی وجہ سے سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ رواں سال جی ڈی پی 3.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، ڈیڑھ مہینے کی درآمدات کے برابر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں ہمارے ذخائر کم ہیں، ملکی برآمدات خطے کے تمام ممالک سے کم ہیں، پاکستان کی لیبر پراڈکٹویٹی خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے۔
قائمہ کمیٹی کے رکن نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی سخت ہے، سخت مانیٹری پالیسی کی وجہ سے معاشی گروتھ اور روزگار متاثر ہو رہا ہے، سٹیٹ بینک کے پاس مانیٹری پالیسی میں نرمی کا اختیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈالر کی پرواز تھم نہ سکی ،دیگر کرنسیوں کی قدر میں کمی
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی رکن بلال اظہر کیانی نے کہا کہ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق رواں سال مہنگائی 13.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، سٹیٹ بینک نے شرح سود 19.5 فیصد مقرر کر رکھی ہے، شرح سود مہنگائی سے 6 فیصد زائد ہے، بلند شرح سود کی وجہ سے حکومتی سود ادائیگیاں بڑھ رہی ہیں، بلند شرح سود کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، سٹیٹ بینک بتائے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
بلال اظہر کیانی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ شرح سود سے متعلق فیصلہ کسی ایک چیز کو مد نظر رکھ نہیں کیا جاتا، اگر رول اوور نہ ہوئے تو بیرونی سیکٹر پر دباؤ ہوگا، اگر گندم مہنگی ہوئی تو مہنگائی بڑھے گی، ان حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود کو بلند رکھا گیا ہے، آئندہ مانیٹری پالیسی کمیٹی اس معاملے کو دیکھے گی۔