(امانت گشکوری)ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تفصیلی رائے جاری کر دی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مشتمل رائے تحریر کی۔جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ تحریری رائے میں اضافی نوٹ دینگے۔
سپریم کورٹ کی تفصیلی رائے میں کہا گیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا،ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب کیس چلا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی،ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا،ملک اور عدالتیں اس وقت مارشل لا کی قید میں تھیں۔
عدالتی رائے میں مزید کہا گیا ہے کہ آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے ججز کی عدالتیں عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ آمر ضیا الحق کو ہوا،ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا الحق کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے رائے میں کہا ہے کہ ایف آئی اے نے بھٹو کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا،پولیس تفتیش مکمل کر چکی ہو تو ایف آئی اے کو فائل دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں،بھٹو کیس کی تفتیش دوبارہ کرنے کا کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا،ہائیکورٹ نے خود ٹرائل کرکے قانون کی کئی شقوں کو غیر موثر کر دیا۔عدالتی رائے میں مزید کہا گیاہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی انھوں نے کی جن کی ذمہ داری ان کا تحفظ تھا،ذوالفقار علی بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے،ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف شواہد ہی موجود نہیں تھے،قتل کا الزام ایف ایس ایف نامی فورس کے ذریعے لگایا گیا تھا،وقوعہ میں استعمال گولی کا خول ایف ایس ایف کے ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا،عدالتوں نے ذوالفقار بھٹو کی پارلیمنٹ میں تقاریر کو بھی فیصلوں میں جواز بنایا،پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو کسی ممبر کیخلاف عدالت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: تیزہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی