شیر اور بکری کا اطمینان سے ایک ساتھ پانی پینے کا منظر اکثر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے، کافی تلاش کے باوجود بھی مگر آدمی ہی کیوں آدمی سے مطمئن نہیں ملتا؟ کیوں ہر طرف بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور پھر بے اطمینانی بھی ایسی کہ اللہ کی پناہ، دانشور اور صحافی سوچتا ہے اور سوچتا ہی رہ جاتا ہے، ہمارا معاشرہ تھا کیسا، اور ہوتا کیا جارہا ہے؟ اے خدا کوئی آدمی تو بھیج، یہاں سب خدا ہیں تری خدائی میں۔
اب یہ تو قانونِ قدرت ہے کہ بکری کو آخرکار ایک دن شیر کی خوراک ہو جانا ہے، کیا کہیں کسی جگہ ایسا بھی لکھا ہے کہ ابنِ آدم بھی ابنِ آدم کو کاٹ دوڑے؟ اپنے بھائی کے حواس پر سوار ہو کر اس کی دانش چاٹ جائے؟ طاقت کی لاٹھی دکھا کر سچائی نگل جائے؟ کوئی اصول پر ڈٹا ہے تو اس اظہارِ حق کو اپنی توہین خیال کر لے؟ جذبات کے مارے ان پڑھ بے چارے تو خیر ان پڑھ، ان سے گلہ ہی کیا۔
2012 کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری بھی کیا محض تعصب کےمارے آدمی ہی نہ نکلے تھے؟ اپنی مرضی کی تصویر کا ایک ہی رخ دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے والے آدمی؟ اُٹھا کر عوام کے منتخب وزیراعظم کو 30 سیکنڈ میں چلتا کر دیا، یوسف رضا گیلانی کے تدبر، سوجھ بوجھ اور عظیم صلاحیتوں سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو آنیوالے 5 سال تک محروم کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مون سون 2024 اور پاکستان پر منڈلاتے خطرات
اتہاس بتاتا ہے کہ آدمی کو آدمی سے خار ہے، اللہ واسطے کا بیر، کیا ہمیں اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرنا چاہیے کہ آدمی کو آدمی سے یہ خار ہے کیوں؟ چلیے میں اپنی ہی شکل دیوار پر لگے آئینے میں دیکھ لیتا ہوں، آئینہ صحافت مجھے بتاتا ہے کہ ایک صحافی کا کام فقط کسی بھی واقعہ کی خبر لوگوں کے سامنے رکھنا ہے، تحریری یا زبانی، صحافی کو مگر اپنے قلم کو گند پر بیٹھنے والی مکھی نہیں بنالینا چاہیے، خبر دیتے وقت صحافی کو ہر قسم کے تعصب سے آزاد ہونا پڑتا ہے۔
کیا یہ کوئی خبر ہے کہ پیپلزپارٹی پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف عوام کی خوشحالی بلکہ عوام و آئین کی حکمرانی پر بھی یقین رکھتی ہے؟ جی نہیں، یہ تو حقیقت ہے، خبر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے میں دن رات جتی ہے، صحافیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ آغاز حقوقِ بلوچستان، کسان دوست اقدامات، گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری، چین کیساتھ تجارتی تعلقات کے نئے دور، خواتین کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد کوٹے کی فراہمی کے ذریعے پیپلزپارٹی نے ہی پاکستان اور یہاں کے لوگوں کو مضبوط بنایا۔
25 مارچ 2008 سے 26 اپریل 2012 تک ملکی تاریخ کا یہ وہ زمانہ تھا جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مشرف آمریت کے بعد پاکستان کو پھر سے اپنے قدموں پر لاکھڑا کیاتھا، جب عوامی خوشحالی کے منصوبوں کی دھڑا دھڑ بنیاد رکھی جارہی تھی، جب پی پی حکومت نے انتشار سے استحکام تک کا سفر طے کیا، جب صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کامیابی سمیٹی، جب وسیلہ حق پروگرام، آئینی اصلاحات، بے نظیر ایمپلائیز سٹاک آپشن سکیم،خواتین کی ترقی و تحفظ کے حوالے سے سزا کے قوانین کی منظوری دی گئی۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام،معاشی ترقی کیلئے چھوٹے کاشتکاروں کو رعایتی ٹریکٹرز کی فراہمی، اجناس کی امدادی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر اقدامات تو محض چند سال میں ہی پیپلزپارٹی کے گیلانی حکومت کے عملِ کبیرہ تھے، گناہِ کبیرہ پھر کیسے بن گئے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کو ایک مضبوط اور دیرپا حکومت مل جائے تو ہر گھر سے بھٹو کیساتھ ساتھ خوشحال پاکستانی بھی باہر نکل رہا ہوگا؟ کیا یہ کسی سیاسی جماعت کی خامی ہوتی ہے یا پھر اچھائی کہ وہ ہر شہری کی خوشحالی پر یقین رکھتی ہے؟ یہ صرف دل میں یقین بلکہ عمل بھی کرتی ہے، ہمیں اچھے کام کرنےوالوں سے اللہ واسطے کا بیر کیوں ہوجاتا ہے؟
پاکستان کو تنزلی کے کنویں میں پھینکنے کا آغاز 26اپریل 2012 سے ہوا تھا، جب یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا، صدر کو استثنٰی میسر ہونے کے باوجود عوام کے منتخب نمائندے سے اس کے خلاف خط لکھنے کا تقاضا، جمہوریت مخالف ’وادارت‘ میں بدل کر کس کو نقصان پہنچایاگیا؟ ظاہر ہے گیلانی دور حکومت میں ترقی کرتے پاکستان اور خوشحالی کی طرف جاتے عام آدمی کو، خلق خدا کا پھر ردعمل کیا آیا؟ چودھراہٹ کے شکار ہوئے وزیراعظم کو ایوان زریں سے اٹھا کر ایوان بالا کا قائد بنا دیا، یہ بہت سے اذہان کو ششدر کرتا واقع کیسے ممکن ہوا؟ جناب والا! لوگوں کےساتھ براہ راست منافقت سے پاک تعلق سے اجزی، محبت اور دوستی سےپیپلزپارٹی نے ثابت کردیا ہے کہ اگر ہجوم کو کوئی قوم بنا سکتا ہے تو وہ زمانہ حال میں بھٹو کی پارٹی ہے، امیرغریب،کالے گورےسب کی پارٹی، پارلیمنٹ کا وقار تو اب اس میں ہے کہ بہترین خدمات انجام دینے کے دوران اپنے نکالے گئے وزیراعظم کے حق میں قرارداد منظور کرے، اور یوسف رضا گیلانی کو 26 اپریل 2012 سے تاحیات سفیرِ پاکستان مقرر کرنے کا اعلان کر دے۔
یہ بھی پڑھیں: میر کیا سادہ ہیں
ایک عرصہ تک اس دھرتی کے صدیوں سے وفادار چلے آتے گیلانیوں کے بیٹے کو لمبے عرصہ تک دیوار سے لگایا جاتا رہا، کبھی جیل میں ڈال کر تو کبھی نااہلی کے کنویں میں، اِس یوسف کی پارسا،حوصلہ مند اور بہادر بیگم فوزیہ گیلانی تک پر ہار چوری کے کراہت آمیز الزام کی بوچھاڑ کی جاتی رہی، ایک دن یوسف رضا گیلانی نے اس واردات کی مکمل داستان سنائی، ہم صحافیوں میں سے کچھ اب بھی گند پر بیٹھنے والی مکھی کا کردار ادا کرتے ہیں، غیر متعصب انسانی آنکھ سے نظر آتی حقیت تو مگر کچھ اور ہی کہتی ہے، کہتی ہے کہ تنقید برائے اصلاح کی بجائے محض تعصب کی بنیاد پر پیپلزپارٹی پہ الزام تراشی کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
جس پیپلزپارٹی کو دھتکارا گیا، وہ آج ایک بار پھر پاکستان کو بچا رہی ہے، جس یوسف رضا گیلانی کو نکالا گیا، وہ ایک بار پھر خدمت خلق کے منصبِ چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر پاکستان پر فائز ہوچکا، جب یوسف کو نااہلی کے کنویں میں پھینکا گیا تو اکیلا تھا، آج اسمبلی میں ایک پورا کنعان آباد ہوگیا ہے، قرآن میں لکھا ہے ’ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے فیض یاب کرتے ہیں اور نیک اعمال کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے‘ یہ نیک اعمال کیا ہوتے ہیں؟ اللہ کی مخلوق کیساتھ بھلائی، مخلوق خدا نے پھر حق پرست یوسف کو اتنی پذیرائی بخشی کہ اس کے سبھی بیٹوں عبدالقادر گیلانی، علی موسی گیلانی، علی قاسم گیلانی، علی حیدر گیلانی کو بھی اپنا نمائندہ چُن کر اسمبلی میں بھیج دیا، دختر نیک اختر فضا گیلانی بھی مسلسل خدمت خلق میں متحرک رہتے ہوئے گیلانی خاندان کی عظمت کا استعارہ ٹھہری ہیں، مشکل وقت میں پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے والوں کے متعلق جب کوئی تاریخ دان پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو بتائےگا کہ 2012 میں نکالا گیا یوسف 2024 میں پاکستان کی حفاظت، اس کی عظمت اور پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے پورا الاؤ لشکر لیکر میدان عمل میں نکل آیاتھا، وہ مگر ہمارے محترم افتخار چوہدری کہاں ہیں؟۔
رات بھر ایک خیال ستاتا رہا کہ افتخار چودھری کہاں ہیں؟ کئی لوگ ہم صحافیوں کو اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں، سمجھیں بھی کیوں نہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری دفتروں، ہسپتالوں،تھانوں کچہریوں میں لوگوں کو اپنے جائز کام کیلئے رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، یوں سارا دن کالز کا تانتا بنا رہتا ہے، اُف خدایا میں نے سوچا افتخار چودھری اور ان کے ہم منصب اگر جمہوری حکومتوں کو گرانے کی بجائے معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے کی تھوڑی سی بھی کوشش کرتے تو عام لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے سرکار کی نوکری نہ کرنے والے اور سرکار سے تنخواہ نہ لینے والے ہم اخبارنویسوں کی ضرورت نہ پڑرہی ہوتی بلکہ اپنا کام وہی بابو ایمانداری اور احسن طریقے سے کررہےہوتے جنہیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی تنخواہ ملتی ہے، کیا ایسوں کو نہیں معلوم کہ ایک دن ان کا احتساب ہونا ہے، یہ قانونِ قدرت ہے کہ انسانوں کے کردار کا بھید میدان عمل میں کھلتا ہے، پھر اسی کے بل بوتے پر کوئی رفعت پاتا ہے تو کوئی ذلت، خدا اور اس کے بندے انسان کو پیار کرنے والے کو ہی اپنا محبوب سمجھتے ہیں، کسی بنچ پر بیٹھ کر فقط جملہ بازی کرنے والے کو نہیں۔
آدمی کوئی کاروبار کرلے یا پھر کوئی جماعت بنا لے، وہ کاروبار یا وہ جماعت کامیاب تبھی ہوگی، جب اس میں خدمت خلق کا جذبہ ہوگا، خاتم النبینﷺ نے کہا تھا ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘‘ لوگوں کو اپنی اندھی نفرت،تعصب اور حسد کے کنویں میں پھینکنےوالوں کو معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے، کسی کا برا چاہنے والا خود ایک دن اپنی آگ میں آپ جل جاتا ہے، 25 دسمبر 2015 میں افتخار چوہدری نے ’جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنائی تھی، کیا کسی کو معلوم ہے کہ آج وہ پارٹی کہاں ہے؟
افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان کے متعلق جتنے منہ اتنی کہانیاں ہیں، کوئی یوسف رضا گیلانی تو کیا ان کے ایک بھی بیٹے کے کردار پر ایک بھی انگلی اٹھا سکتا ہے؟ ارسلان کے ابو افتخار چودھری نے اپنے فیصلوں سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا، یہ ابو جی آج کسی تقریب میں دیکھے جائیں تو لوگ ناک پر رمال رکھ لیتے ہیں، عبدالقادر، علی قاسم، علی حیدر، علی موسی اور فزا کے ابو جس جگہ کھڑے ہوجائیں وہاں مخلوق خدا کا جگمٹھا لگ جاتا ہے۔