گنڈا پور ، اس کا انارکسٹ مرشد  اور ایشوریا رائے 

احمد منصور 

Oct 09, 2024 | 10:46:AM

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، یعنی جھوٹا آدمی اپنے مؤقف پر  زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے اپنی روپوشی اور فرار کی جو فلمی کہانی میڈیا کو اور خیبرپختونخوا اسمبلی کو سنائی ہے اس میں 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم تین چار بار یوٹرن لیا گیا ہے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں ان کی کل کی تقریر اس ابتدائی موقف سے بہت مختلف ہے جسے انہوں نے خود ساختہ روپوشی ختم کرتے وقت اسمبلی پہنچنے کے فوری بعد اپنے خطاب میں اور بعد ازاں مختلف یوتھیا یوٹیوبرز کے ذریعے لانچ کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جو بھی کہانی بیان کرنے کی کوشش کی اس کی ایک بات دوسری سے نہیں ملتی، اس میراثی کی طرح کہ جس کی آنکھوں میں کچھ بھینگا پن تھا، میراثی کے دوستوں نے مشہور کر دیا کہ اس کی آنکھیں بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے سے ملتی ہیں، میراثی روز رات کو پینے کا شوقین تھا، ایک رات کچھ زیادہ ہی پی گیا جس کی وجہ سے چڑھ گئی، اس کیفیت میں اسے دوستوں کی بات یاد آگئی، بیوی کو بلا کر کہنے لگا کہ بیگم دیکھو تو کیا میری آنکھیں واقعی ایشوریا رائے سے ملتی ہیں؟ بیوی بھی میراثی کی تھی، کہنے لگی، سرتاج! آپ کی تو ایک آنکھ دوسری سے نہیں ملتی ایشوریا رائے سے کیا ملنی ہیں۔ 

 گنڈاپور اپنے صوبے کے ہزاروں لوگوں کو اشتعال دلا کر وفاقی دارالحکومت لائے اور پھر شتر بے مہار کی طرح چھوڑ کر خود غائب ہوگئے، اس عمل سے صاف  نظر آ رہا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے اپنے انارکسٹ مرشد کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور انارکی پھیلا کر کچھ لاشیں حاصل کرنا چاہتے تھے، خود غائب اس لیئے ہوئے کی خون خرابے کا الزام ان پر نہ آئے،  گنڈا پور جب احتجاجی قافلہ لے کر اسلام آباد روانہ ہوا تو دعویٰ کیا کہ وہ احتجاج کو فرنٹ سے لیڈ کرے گا اور سینے پر گولی کھائے گا، لیکن میدان میں اترتے ہی بقول خود اس کے ڈی چوک میں قانون نافذ کرنے والی فورس کی غیر معمولی تعداد دیکھ کر وہ خیبرپختونخوا ہاؤس چلا گیا، اور مبینہ ریڈ کے دوران کسی چوہے کی طرح پولیس پکٹ میں چار گھنٹے تک چھپا رہا،

 گنڈا پور کی اپنی کہانی کے مطابق پولیس کا اس سے ٹاکرا ہی نہیں ہوا، تو پھر اس کے ذاتی موبائل و سیٹلائٹ فون اور والٹ کہاں گئے؟ راستے میں اسے جس ڈرائیور اور اہلکاروں نے ریسکیو کیا ان کے پاس بھی کیا موبائل فون نہیں تھے؟ پشاور کا طویل روٹ لے کر سفر کے دوران وہ کسی ضلع میں اپنے پارٹی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کے گھر جا کر یا پولیس سمیت کسی محکمے میں جا کر موبائل فون اور سوشل میڈیا استعمال کر سکتے تھے اور اسلام آباد احتجاج کی صورتحال اور اپنے ان کارکنوں کی سلامتی کی صورتحال سے آگاہی حاصل کر سکتے تھے جنہیں وہ ساتھ اسلام آباد لائے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، پشاور پہنچنے کے بعد بقول ان کے وہ گھر جا کر سو گئے، یعنی اپنے گھر جاکر بھی انہوں نے نیوز چینلز پر اور سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں موجود اپنے کارکنوں کے بارے میں جاننے پر کوئی توجہ نہیں دی کہ جنہیں وہ بغیر قیادت کے چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے، اس دوران انہوں نے اپنی مبینہ گرفتاری یا لاپتہ کیئے جانے کے حوالے سے خبروں کا جو ملک بھر میں طوفان آیا ہوا تھا اس کی تردید کرنے کی انہوں نے کوئی ضرورت محسوس نہیں کی، اور پھر کئی گھنٹے بعد اسمبلی پہنچ کر یہ وضاحت کی کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا اور وہ خود روپوش ہوئے تھے۔ 

اپنے جھوٹے مرشد کی طرح علی امین گنڈاپور خود بھی ایک بہت بڑا جھوٹا ہے،  منتخب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خیبرپختونخوا کی گڈ گورننس کیلئے اپنا اصل کردار اور ذمے داریاں ادا کرنے کی بجائے وہ مسلسل احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کا انتظام کر کے اڈیالہ جیل میں بیٹھے اپنے انارکسٹ مرشد کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں،ے۔

ضرورپڑھیں:اسلام آباد سازش کیس ، شر پسندوں کا ٹھکانہ پکڑا گیا

خیبرپختونخوا اسمبلی میں علی امین گنڈاپور کی تقریر  نیوز چینلز کی بجائے انٹرٹینمنٹ چینلز پر چلانے کے قابل تھی،  یہ ساری کہانی جو انہوں نے گھڑی ہے اس کا سوائے اس کے کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا کہ اپنے پارٹی کارکنوں کے دل و دماغ میں اپنے حوالے سے پیدا ہو جانے والی نفرت کو کم کر سکیں، علی امین گنڈا پور نے اپنی ساکھ اپنی گھٹیا پالیسیوں کی وجہ سے خود تباہ کی ہے کہ جس کے تحت وہ ایک سنجیدہ سیاستدان کی بجائے ایک غنڈے نظر آتے ہیں، انہیں ایک فراری کی بجائے ایک وزیر اعلیٰ والے رویئے اور کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا۔ 

گنڈاپور ایک طرف کہتے ہیں کہ وہ گرفتاری کے خوف سے خیبرپختونخوا ہاؤس کی ایک پولیس پکٹ میں چھپے رہے اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ میں گرفتاری سے نہیں ڈرتا، اپنے بزدلانہ فرار کی یہ مبینہ کہانی انہوں نے جس فخر سے سنائی اس سے بھی ان کے مینٹل لیول کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انہوں نے یہ جو جھوٹ گھڑا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس کا پول کھولا جائے، حقیقت یہ ہے کہ وہ لاپتہ نہیں ہوا تھا، بلکہ اپنی پارٹی کو اپنے لاپتہ ہونے کا شور مچانے کا کہہ کر وہ خود ہی غائب ہو گیا تھا، پی ٹی آئی والوں نے ایسی ہی واردات ظلے شاہ کے کیس میں بھی کی تھی، جسے خود ان کی پارٹی کے لوگوں نے قتل کیا لیکن اصل حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے پی ٹی آئی نے ایک پورا بیانیہ بنا کر اس قتل کا الزام حکومت پر لگا دیا، جھوٹ ، پروپیگنڈے اور سازشی تھیوریوں میں یہ جماعت یوں بھی خصوصی مہارت رکھتی ہے۔ 

وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی کا کردار بھی اڈیالہ جیل میں بیٹھے بانی چیئرمین جیسا ہے، اس کی خوشنودی کیلئے خیبرپختونخوا اسمبلی کے جتنے اجلاس بلائے گئے وہ صوبے کے عوام کی خاطر بلائے گئے اجلاسوں سے کہیں زیادہ ہیں، جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کر کے گنڈا پور صاحب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی مبینہ گرفتاری کا فسانہ تراشنے میں لگے ہوئے ہیں، جو کہ اصل میں اپنے لوگوں کو دھوکہ دے کر کی گئی انتہائی شرمناک پسپائی اور فرار ہے، پی ٹی آئی کی یہ پرانی حکمت عملی ہے کہ اگر آپ لوگوں کو قائل نہیں کرسکتے تو انہیں کنفیوژ کر دو۔ 

وزیر اعلیٰ گنڈا پور کو اپنے گرفتار ورکرز سے ہمدردی ہوتی تو ان کے ساتھ اسلام آباد میں موجود رہتے میدان چھوڑ کر نہ بھاگتے، انہیں اب گرفتار کارکنوں، افغان باشندوں اور سرکاری ملازمین کی یاد اس لیئے ستا رہی ہے کہ کہیں یہ گرفتار افراد ان کے پول نہ کھول دیں کہ ان بیچاروں کو پیسے دے کر اس خون خرابے کیلئے لایا گیا تھا، 

گنڈاپور کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ ریاستی مشینری کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے ذاتی ملازمین کے انداز میں استعمال کرے، جب ریاستی مشینری ریاست کے احکامات پر عمل کرتی ہے تو پھر گنڈا پور "چین آف کمانڈ" کے حوالے سے سوالات اٹھانا شروع کر دیتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب گنڈا پور پر یہ واضح کر دینا چاہیئے کہ یہ ریاست کے اہلکار ہیں نہ کہ اس کے ذاتی یا اڈیالہ جیل میں بیٹھے اس کے انارکسٹ مرشدِ کے ذاتی ملازم!

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں