الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا:چیف جسٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔
فل کورٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ فیصلوں کی بات کرتے ہیں، جو ایک اہم فیصلہ تھا وہ انتخابات کا تھا، سب کو پتا ہے کہ نگران حکومت تھی اور الیکشن نہیں ہورہے تھے، الیکشن پٹیشن یہاں آئی، تین دن سنوائی ہوئی اور 12 دن میں فیصلہ ہوگیا، ہم نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، صدر مملکت کہہ رہے تھے کہ تاریخ دینے کا اختیار میرا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کہہ رہا تھا کہ تاریخ ہم دیں گے مگر کسی نے بھی تاریخ نہیں دی تھی، پھر یہ معاملہ آیا اور ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ صدر کے پاس جائیں اور تاریخ لے کر آئیں، انہوں نے فروری کا فیصلہ کیا، ہم نے اسے آرڈر میں لکھا اور کہا کہ اب اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی گی۔
چیف جسٹس کے مطابق رکاوٹ ڈالنے والے رکاوٹ ڈھونڈ لیتے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا کہ تمام پاکستان کے آر او اور ڈی آر اوز کو روک دیا گیا نا صرف پنجاب میں بلکہ پورے پاکستان میں اور انہوں نے کہا کہ یہ ریٹرننگ افسر نہیں ہوسکتے اور انہیں عدالت سے فراہم کیا جائے، الیکشن کمیشن لکھ چکی تھی ہائی کورٹس کے چیف کو کہ آپ ہمیں ریٹرننگ افسر دینا فرمائیں گے کیونکہ قانون یہی کہتا ہے تو کورٹس نے منع کردیا کہ ہم نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے پاس کیسز ہیں، قانون یہ کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص لوگ نہیں لگائے جہاں ڈی سی تھا اسی کو لگا دیا تو سپریم کورٹ نے اسے سراہا اور اس فیصلے کو ہٹایا راستے سے، الیکشن جمہوریت کے ساتھ منسلک ہیں۔
ضرورپڑھیں:پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا:چیف جسٹس آف پاکستان
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک نے منیر بھٹی کیس کی بات کی، اس فیصلے میں میں اقلیت میں تھا، میں اس کیس کی آرا سے اتفاق نہیں کرتا تھا، ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 184 -3 کا جو استعمال کیا جارہا ہے ازخود نوٹس کا یہ کسی پیمانے کے تحت ہونا چاہیے اور میں اس بات پر متفق ہوں کیونکہ آئین بھی یہی کہتا ہے، آئین ازخود معاملے پر کہتا ہے کہ یا تو وہ بہت اہم ہو عوام کے لیے اور دوسرا یہ ہو کہ اس کا تعقلق بنیادی حقوق کے نفاذ پر، توہین کا بھی کہا گیا تو میں نے اپنی ذات کے حوالے سے بھی توہین کا نوٹس نہیں لیا، بس ایک دفعہ میں نے توہین کا نوٹس لیا اور جنہوں نے کیا تھا انہوں نے بھی معذرت کرلی، یہ بس ایک دفعہ ہوا ہے مگر اس کا مطلب نہیں کہ آپ معاشرے میں گالی گلوچ شروع کردیں۔