پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا:چیف جسٹس آف پاکستان
مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا،جسٹس قاضی فائز عیسٰی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مواقع پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈنگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا، ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، یہ بھی ختم ہوگیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم ہم نے ختم کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے، دوسری چیز جو ختم ہوگئی وہ ماہانہ کاز لسٹ تھی، ایک دم سے کیس لگ جاتا تھا، مجھے اچانک بتایا جاتا تھا کہ کل کیس لگ گیا، اب رجسٹری میں کیس سننے کی سہولت موجود ہے، لیکن اب ماہانہ کاز لسٹ شروع ہوگئی ہے، اب وکیلوں کو پتا ہوتا کہے کہ مقدمہ کب لگے گا، ہم کوشش کریں گے کہ وکیلوں کی سہولت کے لیے ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگ پراسیکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، کچھ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ چیزٰن دنیا کے ہر سسٹم میں موجود ہے، یہ چیزیں آپ تجربے سے سیکھتے ہیں، اگر سوچ سمجھ کے کیسز لگائے جائیں تو شفافیت نہیں ہوگی۔ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا کیس فورا لگ جائے، قطاریں ہوتی ہیں، اگر کوئی فرد قطار میں لگا ہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہے کہ اس کو نمبر دو سال بعد آئے یا تین سال بعد، اس کو تکلیف ہوتی ہے جب کوئی اچانک سے میرے سامنے آجائے قطار میں، کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے کہ وہ جلد سنیں جائیں تو ان کو ترجیح جاتی ہے، اس میں بچوں کی سر پرستی کے معاملات وغیرہ شامل ہیں ان میں ہوتا ہے کہ ان کو جلدی لگایا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پہلے آئیں کا فارمولا استعمال ہوتا ہے، اب ہمیں سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ میں جو تقاضے ہوتے ہیں وہ پورے کرنے ہوتے ہیں، کچھ پرانے صحافی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا تو چیف جسٹس اب مقدمہ نہیں لگا سکتے، اب کمیٹی لگاتی ہے اور شفافیت کے لیے کمیٹی کے فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگائے جاتے ہیں، ان کو خود پڑھا جاسکتا ہے، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں، صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ سچ بولیں، میں جج کی حیثیت سے نہیں کہہ رہا یہ بات۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے فل کورٹ میٹنگ کی، فل کورٹ تشکیل دیا گیا، اگلا اقدام میرا کتنے ڈیپیوٹیشنسٹ یہاں بیٹھے تھے سپریم کورٹ میں ان کو میں نے رخصت کیا، ان کا قانون کہتا ہے ڈیپیوٹیشنسٹ تین سال کے لیے آسکتا ہے، اس میں ایک سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں، ان کت بیٹھے ہونے سے جو منفی نتیجہ نکلتا تھا وہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے ملازمین کی اپنی ترقی رک جاتی تھی، ان کے بعد 146 ملازمین کو ترقی ملی۔
چیف جسٹس کے مطابق ایک بات جس پر توجہ نہیں دی جاتی وہ یہ ہے کہ آپ اور ہم عوام کے لیے ہیں، عوام چاہتی ہے کہ ہمارے مقدمے جلد سے جلد تعین ہوں اور پیسے فضول خرچ نہ ہوں، یہ فضول خرچی بھی روکی گئی، یہ بات کہتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن بتایا ضروری ہے کہ چیف جسٹس کے لیے 3000 سی سی کی مرسڈیذ بینز کی ضرورت نہیں میرے حساب سے، بلٹ پروف لینڈ کروزر کو بھی لوٹا دیا گیا اور حکومت سے درخواست کی کہ مناسب پوگا کہ انہیں بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدی جائیں، ہمیں ٹویوٹا چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی کروڑوں کی گاڑیاں ہوتی ہے تو یہ چھوٹی باتیں ہیں اور ہم یہی کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسے عوام کی امانت ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم پیسے بچا سکتے ہیں یا نہیں، اٹارنی جنرل نے ذکر کیا مختلف عدالتوں کا، اس میں سول کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹس ہیں پھر ایک اور عدالتیں ہوتی ہیں وفاق کی جن میں کسٹم اپیلیٹ ٹریبونل، نیب کورٹ، سیلز ٹیکس اپیلٹ ٹریبونل، احتساب کورٹ وغیرہ شامل ہیں، صرف کراچی میں 36 ایسی وفاقی عدالتیں ہیں، نہ کوئی ان کی عمارتیں صحیح ہیں نہ ان کا ریکارڈ محفوظ ہیں، ایک دو ان میں سے سرکاری بلدنگز میں ہیں لیکن باقی پرائیوٹ بلڈنگز میں موجود ہیں تو عوام پر ان کے کرائے وغیرہ دینے کا بھی بوجھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ بن رہا تھا کراچی میں جو ہائی کورٹ کے سامنے الیکشن کمیشن ہوتا تھا کراچی کے دل میں وہاں تقریبا 7 ایکڑ تھی زمین، یہ سپریم کورٹ کو دی گئی کہ یہاں رجسٹری بنائی جائے، میں نے سوچا کہ کراچی میں رجسٹری کی کیا ضرورت، اگر بینچ جاتی بھی ہے 2،4 دفعہ تو یہ پروجیکٹ تھا 6 ارب کا، یہ پروجیکٹ بلڈنگ کمیٹی جس کا میں ممبر ہوں تو اس میں فیصلہ ہوا کہ اسے سرکار کو واپس لوٹایا جائے اور اس شرط پر کہ جو 36 عدالتیں ہیں ان کو ایک جگہ منجمد کردیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پروجیکٹ کا آغاز تو ہوگیا تھا لیکن بیسمنٹ ہی بنا تھا اور اب اس کے پلان پر کام بھی کرنا ہوگا اور ہم جہاں کراچی میں تھے وہاں ہی کام کریں گے، ہمیں 6 ارب کی زمین کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ملازمین میں خوش ہوتے ہیں کچھ ناراض ہوتے ہیں، مجھ سے پہلے والے سال میں سپریم کورٹ ملازمین کو 3 مزیدگراس تنخواہیں دی گئیں، سپریم کورٹ ملازمین کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں سرکاری تنخواہوں سے، یہ ایک بڑی رقم تھی، میں نے اسے ایک بیسک سیلری کردی۔
چیف جسٹس کے مطابق ایک بات جس پر توجہ نہیں دی جاتی وہ یہ ہے کہ آپ اور ہم عوام کے لیے ہیں، عوام چاہتی ہے کہ ہمارے مقدمے جلد سے جلد تعین ہوں اور پیسے فضول خرچ نہ ہوں، یہ فضول خرچی بھی روکی گئی، یہ بات کہتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن بتانا ضروری ہے کہ چیف جسٹس کے لیے 3000 سی سی کی مرسڈیذ بینز کی ضرورت نہیں میرے حساب سے، بلٹ پروف لینڈ کروزر کو بھی لوٹا دیا گیا اور حکومت سے درخواست کی کہ مناسب پوگا کہ انہیں بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدی جائیں، ہمیں ٹویوٹا چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی کروڑوں کی گاڑیاں ہوتی ہے تو یہ چھوٹی باتیں ہیں اور ہم یہی کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسے عوام کی امانت ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم پیسے بچا سکتے ہیں یا نہیں، اٹارنی جنرل نے ذکر کیا مختلف عدالتوں کا، اس میں سول کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹس ہیں پھر ایک اور عدالتیں ہوتی ہیں وفاق کی جن میں کسٹم اپیلیٹ ٹریبونل، نیب کورٹ، سیلز ٹیکس اپیلٹ ٹریبونل، احتساب کورٹ وغیرہ شامل ہیں، صرف کراچی میں 36 ایسی وفاقی عدالتیں ہیں، نہ کوئی ان کی عمارتیں صحیح ہیں نہ ان کا ریکارڈ محفوظ ہیں، ایک دو ان میں سے سرکاری بلڈنگز میں ہیں لیکن باقی پرائیوٹ بلڈنگز میں موجود ہیں تو عوام پر ان کے کرائے وغیرہ دینے کا بھی بوجھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ بن رہا تھا کراچی میں جو ہائی کورٹ کے سامنے الیکشن کمیشن ہوتا تھا کراچی کے دل میں وہاں تقریبا 7 ایکڑ تھی زمین، یہ سپریم کورٹ کو دی گئی کہ یہاں رجسٹری بنائی جائے، میں نے سوچا کہ کراچی میں رجسٹری کی کیا ضرورت، اگر بینچ جاتی بھی ہے 2،4 دفعہ تو یہ پروجیکٹ تھا 6 ارب کا، یہ پروجیکٹ بلڈنگ کمیٹی جس کا میں ممبر ہوں تو اس میں فیصلہ ہوا کہ اسے سرکار کو واپس لوٹایا جائے اور اس شرط پر کہ جو 36 عدالتیں ہیں ان کو ایک جگہ منجمد کردیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پروجیکٹ کا آغاز تو ہوگیا تھا لیکن بیسمنٹ ہی بنا تھا اور اب اس کے پلان پر کام بھی کرنا ہوگا اور ہم جہاں کراچی میں تھے وہاں ہی کام کریں گے، ہمیں 6 ارب کی زمین کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ملازمین میں خوش ہوتے ہیں کچھ ناراض ہوتے ہیں، مجھ سے پہلے والے سال میں سپریم کورٹ ملازمین کو 3 مزیدگراس تنخواہیں دی گئیں، سپریم کورٹ ملازمین کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں سرکاری تنخواہوں سے، یہ ایک بڑی رقم تھی، میں نے اسے ایک بیسک سیلری کردی، اس سے جو پیسے بچے ہم نے کمپیوٹر خریدے، موٹر سائیکلز خریدیں رائیڈرز کے لیے، کوسٹرز خریدیں، بسیں خریدیں، الیکٹرک وہیکلز خریدیں، پھر 25 ہزار کا بونس سب کو دیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مزید یہ ہوا کہ پارلیمان نے ایک مفید اضافہ ہمارے آئین میں کیا، انہوں نے 19 الف کی شق ڈالی اور اس میں کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن بنیادی حق ہے شہری کا اور جتنا ہم کھولیں گے خود کو اتنا آپ ہم پر تنقید کرسکتے ہیں، اگر شخص تھے مختار احمد علی نے خط لکھا رجسٹرار سپریم کورٹ کو کہ کہ مجھے تفصیلات بتائی جائیں ملازمین وگیرہ کا، رجسٹرار نے اپیل دائر کی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ استثنیٰ حاصل ہے سپریم کورٹ کو ، سپریم کورٹ 19 اے کے ضمرے میں نہیں آتی، جب کیس ہمارے پاس آیا تو ہم نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں، یہ حقوق کا معاملہ ہے اور بنیادی حق کے راستے میں کچھ نہیں آتا، تو ہمیں جو استثنی دی تھی اسے ہٹایا اور جنہوں نے ہم سے تفصیلات مانگی تھیں ہم نے ان کو دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ تنقید کرنے والے بتادین کہ کیا دنیا میں ایسا فیصلہ کہیں ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو بتائیں اور اگر نہیں تو سر بلند کر کے بتائیں کہ آپ کی سپریم کورٹ نے بنیادی حقوق کو اہمیت دی، ہم سمجھتے ہیں کہ اہم لوگوں کے بنیادی حقوق ہی اہم ہیں لیکن سب کے بنیادی حقوق اہم ہوتے ہیں، تو یہ ہم نے کر دکھایا، اور کوئی بھی ہمیں خط لکھ سکتا ہے، مفروضوں پر نہ جائیں۔