(24 نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمان قانون بناتا ہے اور ہمارا کام قانون کی تشریح کرنا ہے،ذاتی نوعیت کے الزام میں جج کو اجازت دی گئی کہ وہ اس کا جواب دے سکیں۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ تنقید کریں مگر گالی گلوچ نہ کریں، ہمیں آزادی رائے پر پورا یقین ہے اور ہم نے اس پر قدغن نہیں لگائی، پارلیمان قانون بناتا ہے اور ہمارا کام قانون کی تشریح کرنا ہے، اور اگر سمجھیں کہ قانون آئین کے برعکس ہے تو اسے روک دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس مظاہر علی نقوی کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں سے شفافیت اور احتساب مانگیں اور خود کا نہ کریں تو بات کی وزن نہیں ہوتی اور فیصلوں کی اہمیت بھی نہیں ہوتی، ہمارے جج پر الزام لگائے گئے، جوڈیشل کونسل نے کارروائی کی اور ان کو برطرف کیا گیا، ہم نے کیس کھلی عدالت میں چلایا اور سپریم کورٹ کے جج کو بد انتظامی پر برطرف کیا گیا پہلی دفعہ پاکستان میں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غلطی بھی ہوتی ہے، اور اس عدالت نے بھی غلطیاں کی ہیں، جب تک ہم اس کا اعتراف نہیں کریں گے درست سمت کی طرف نہیں جاسکیں گے، زوالفقار علی بھٹو کا مشہور کیس تھا انہیں سزائے موت دی گئی لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور نظر ثانی اپیل خارج کردی بھٹو کی، پھر اس وقت کے صدر پاکستان جو آج بھی صدر مملکت ہیں نے ایک ریفرنس بھیجی اور تقاضا کیا کہ اس فیصلے کی درستگی کی ضرورت ہے، ہم نے کیس سنا، اور فیصلہ ہوا کہ کیس کو غیر منصفانہ طرز پر نہیں چلایا گیا، یہ ہماری رائے تھی، اس عدالت نے اعتراف کیا، اسی طرح ایک جج کو برطرف کیا گیا تھا غلط طریقے سے تو ہم انہیں بحال نہیں کرسکے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کو نکالے گئے جج نہیں بلکہ ریٹائرڈ جج کی طرح لکھنے کا حکم دیا۔
ضرورپڑھیں:الیکشن کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا:چیف جسٹس
مزید بتایا کہ ایک آئینی کی شق ہے غداری پر، ایک مقدمہ چلا تھا آئین شکن پر، جنرل مشرف پر ٹریبونل بنا، لاہور ہائی کورٹ نے کہا یہ سزا تریبونل نہین دے سکات تھا جبکہ ہائی کورٹ کے پاس ایسا اختیار نہیں تھا کیونکہ اس کی اپیل سپریم کورٹ میں کی جاتی ہے تو ہم نے اس فیسلے کو کالعدم قرار دیا اور آئین شکن کو قصور وار ٹھہرایا، کراچی میں نسلہ والوں کو معاوضہ دلوایا اور تجاوزات کو ہٹانے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے سامنے سڑک پر بیرئیرز رکھے گئے تھے ہم نے وہ ہٹوا دیے، اور دوسروں کو حکم دیا کہ وہ بھی اس کے تابع ہیں کہ وہ ہٹائیں ورنہ جو اس ادارے کا سربراہ ہوگا وہ ذمہ دار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مارگلہ پہاڑی کا کیس بھی بہت اہم تھا، کچھ کیسز بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں، چیف جسٹس کے گھر میں مور رکھے گئے تھے پنجروں میں تو چیف جسٹس کے گھر میں موروں کا کیا کام؟ ان کی رہائی کروائی گئی، موروں کو جنگلوں میں ناچنے دیں، ہم نے وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کو مؤثر بنایا، اسے فعال ادارہ بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ قانون کے مطابق 17 ججز پر مشتمل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کئی سالوٓں سے مکمل نہیں تھا تو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی تعداد پوری کی گئی، ہم نے ایڈہاک ججز لیے، اس میں ہمارے بااعتماد ججز تھے، ہم پر جائز تنقید ہے کہ جو چیزیں نمٹائے گئے وہ 15 ہزار 660 کیسز ہیں، یہ ایک بڑا نمبر ہے لیکن یہ ایک اچھی بات نہیں، یہ 44 کیسز بنتے ہیں ایک دن کے، اس میں چھٹیاں شامل نہیں ہیں، اگر چھٹیاں لکالیں تو نمبر بڑھے گا اور ہماری کوشش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کیسز نمٹائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور ادارہ ہے شریعت اپیلیٹ بینچ، اس میں دو عالم جج کا ہونا شامل ہے، ہمارے پاس ایک ہی جج رہ گئے تھے تو ایک جج ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو تعینات کیا گیا اور یہ ادارہ 4 سال بعد فعال ہوگیا، یہ ججز بھی دانشور ہیں، انہوں نے بھی چھٹیوں میں کام کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ روزانہ ججز پر جھوٹے اور سچے الزام لگا دیے جاتے ہیں اور جج پہلے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو ہم نے جوڈیشل کونسل کے اکوڈ آف کندکٹ کے آرٹیکل میں ترمیم کی اور کہا کہ الزام لگایا جائے اگر ذاتی نوعیت کا تو جج کو اجازت دی گئی کہ وہ اس کا جواب دے سکیں، وکیلوں کے نمائندوں سے ہماری میٹنگ ہوئی، انہوں نے مشورے دیے، سپریم کورٹ پریس ایسو سیایشن سے بھی ملاقات ہوئی اور کہا گیا کہ تنقید کریں پر جھوٹی خبر نہ چلائیں، ہم مان لیتے ہیں جب غلطی کرتے ہیں مگر کچھ لوگ نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے موس گرما کی چھٹی میں ایک ماہ کم کردیا اور چھٹیوں میں بھی کیس چلائے گئے اور کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کی کسی بینچ نے کام نہیں کیا ہو، بہت سے کام لیکن ابھی بھی ہونے باقی ہیں،ہر چیز ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ہے، ہم اس رپورٹ میں اپنی کارکردگی بتاتے ہیں۔