سرونٹ رول سترہ-اے اور 77واں حکومتی آزادی فلوٹ
وارث پراچہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
وطن عزیز ایسی دھرتی ہے جہاں انصاف کم و بیش مفقود ہے، عدالتی نظائر لائبریری سے نکلتے ہی منصف کی دہلیز پر آواز پڑنے پر نئی توجیہہ پر دم توڑ دیتے ہیں۔پھر آواز بلند ہوتی ہے اور یوں توہین نظائر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آئین کی کتاب نذیر کو نظیر پر فوقیت دینے پر چپ سادھے اپنے زندان میں ہے اور مجمع اسے خاص عطا سے تعبیر کیے بونوں کی طرفداری کر رہا ہے۔
حوادث نے ہماری نسلوں سے شکل اور عقل دونوں کا سودا کر لیاہے۔ہرکارے چمڑے سے چمڑا رنگتے سچ پر بہتان لگا رہے ہیں تاہم کچھ تو ان ہرکاروں کے ساتھ بھی برا ہوا ہے ۔ گذشتہ دنوں پنجاب حکومت نے قیدی عوام سے چُنے ملازمین کو حالات کی گرد چھانتے ریاست سے وفاداری پر ایک اعزاز سے نوازا ہے اور وہ اعزاز 17-A رُول کا پنجاب سول سرونٹس رُولز 1974ء سے خاتمہ ہے۔ ویسے تو اس رُول پر شب خون مارنے کا سلسلہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی سے حاصل اسکی تشریحات سے ہی شروع کر دیا گیا تھا مگر تابوت میں آخری کیل اس بابرکت حکومت نے ٹھونکا ہے۔ ایک ایماندار ملازم کا کل اثاثہ اسی بھوک،ایمانداری کے بعد اسکی اولاد ہی ہوتی ہے اور نوکر شاہی کے جبر کا اندازہ اسکی الماریوں میں پڑی گرد آلود درخواستوں سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ویسے تو گریڈ -11 کی نوکری حلال کا لقمہ کھانے والی پڑھی لکھی اولاد کے لئے خاص توشہ نہیں ہونا چاہیے مگر اس معاشرتی ناہمواری، خاندانی ڈھانچے ،طبقاتی کشمکش کے ساتھ اس گھٹن زدہ سماج کے نوازے نفسیاتی مسائل بے وقت موت میں آسیب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور وہی والدین منوں مٹی تلے بھی اپنے خواب ٹوٹتے دیکھتے ہیں۔خواب سنبھالتا بھی وہ ہے جو اسے دیکھتا ہے یا اس کی تعبیر کے لیے اس جدوجہد کا حصہ بنتا ہے۔ادھر آزادی کے پھل نے کئی نسلوں کو پکنے نہ دیا خونریزی کی جو داستاں پنجاب کی حد بندیوں پر رقم ہوئی یہ سماج اسکا قرض آج تک نہیں اتار سکا۔صاحب اقتدار ! اس دھرتی پر کتنے لوگ بے گھر ہیں اور کتنے ایسے گھر ہیں جنکے درودیوار کے آبیاری میں بادشاہِ وقت کی چاپلوسی سے فصیلیں بڑی ہوتی خود شہر بن گئیں۔ "چور اچکا چودھری تے گنڈی رن پرھان" ۔۔۔
نوآبادیادتی گماشتوں کو تو انکے آبادکاروں کے ضلعی ریکارڈ ہی ننگا کر دیتے ہیں۔وطن عزیز نے آزادی کے بعد آج تک کتنے سوچنے والوں کو جینے دیا ہے۔آبادی کے لحاظ سے ہماری بستی کا شمار دنیا کی بڑی آبادی والی بستیوں میں کیا جاتا ہے مگر آج تک ہم نے کتنے عالمی معیار کے لوگ سامنے لاکر انہیں آنے والی نسلوں کا رول ماڈل بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قصہ اتنا ہے کہ جو خداداد صلاحیتوں سے باہر کی دنیا میں جانا بھی گیا، ہم نے اسے زیر کرنے میں تمام وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جس میں سماجی درجہ بندیوں کے ساتھ عقائد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔کونسا ہمارے وطن طب،سائنس،فنون،شاعری کا بڑا نام ہمارےبچوں کے نصاب کا حصہ ہے۔ الٹا اب تو 47ء کے بعد ہمیں سب سے بڑی ہجرت کا سامنا ہے۔کن اللے تللوں پر آج تک ان جمہور دریافت حکومتوں نے خرچ کیا ہے۔رہی سہی کسر یہ ترامیم نکال دیں گی کوئی ہمت کر بھی لے تو لاکھوں روپے تنخواہ آنکھ کی پٹی کا رنگ تبدیل نہیں ہونے دیتی چاہے منظر سرخ آندھی کا ہی کیوں نہ ہو۔ سوموٹو! ملازموں کی فلاح کے لئے؟ جہاں سیاستدان موروثی اور منصف بغیر میرٹ منتخب ہوں وہاں 17-A کوئی کالا قانون نہیں تھا- رزق کا سد باب ریاست کرتی ہے مگر یہاں دوران ملازمت مرنے پر ملازم کے بچوں سے چھت چھیننے کا بندوبست بھی کر لیا۔ادھر درجہ بندی میں بٹے پیشہ ور گروہ منو کے چیلوں سے کم نہیں۔ نوری انتظامی پروہت برہمن اور سرکاری صوفی منصف ،صنعتی ہرکارا بنیا کھشتری، خاکی پُرزے رزق اُگاتا ویش اور شودر استاد!
ضرورپڑھیں:خیبر پختونخوا کے شیر جوان پنجاب پولیس سے بھی دو قدم آگے، خواجہ سراؤں نے بھتہ لینے کا الزام لگادیا
کیا ہی اچھا تھا کہ صحت کے غیر موثر نظام اور ریاستی ذمہ داریوں کی احسن طریق سے انجام دہی کی وجہ سے ارض پاک پر گھٹتی اوسط عمر کے پیش نظر ریٹائرمنٹ کی عمر پچاس سال کر دی جاتی،تاکہ 17-A کے حوالے سے من گھڑت آسیب خود ٹل جاتا۔ ملازمت بھی کیا دفاتر میں دولے شاہ کے چوہے جن میں کم سوچنے والے کا گریڈ بیس سے شروع ہوتا اور پھر ترقی ہوتی ہے سوچنے والا چوہا گریڈ 17 سے آگے کم جاتا ہے اگر چلا بھی جاۓ تو 19 ,20 تک 17-A کے لئے راہ ہموار کر جاتا ہے۔ یہ عموماً طبعی موت نہیں مرتے مگر اندراج رپورٹ میں ذکر طبعی کا ہی ہوتاہے۔ صاحب اقتدار یا امیر شہر کیا کہا جاۓ، ہم سب کم وبیش بشمول آپ کے 17-A کی کولیفیکیشن پر اتر کر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ کس سرکاری ملازم کی اولاد یا کون بد بخت اس معاشرے میں والدین کی قربانی گریڈ -11 کے لیے چاہتا ہوگا ویسے تو یہاں پڑھے لکھے کو بھی 17-A کے تحت بھکاری سمجھ کر درجہ چہارم تک محدود رکھا جاتاہے۔ پہلے پہل تو ایسا ہی لگا کہ خزانے پر سارا بوجھ ہی 17-A کی وجہ سے ہے جبکہ آئین پر 19 اور 19-A ایک بوجھ ہے اور ریاست پر بوجھ 16،17اور 10-A کی وجہ سے ہے تو چپ سی لگ گئی کہ شاید یہ ضروری اقدامات ہیں مگر بھلا ہو مقتدر قوتوں کا بالخصوص وزیر اعلٰی اور وزیر اطلاعات کا جنہوں نے 77 سالہ تقریبات پر ہمیں زندہ قوم تصور کرتے ہوۓ ذرائع کے مطابق راولپنڈی سے لاہور تک آزادی فلوٹ پر ایک کروڑ کی خطیر رقم خرچ کرنے کی مزدوری دی سننے میں آرہا کہ روز روشن کی طرح یاسیت پسند غبی ذہن نے اس آزادی پر بھی قوم کو چونا لگانے کی ٹھان لی ہے، ادھر فلوٹ کی تیاری پنڈی آرٹس کونسل میں جاری تو دوسری طرف مری کے دروازے بیوی بچوں اور دوستوں پر کھول دئیے گئے ہیں۔فیصلہ آزادی کے جشن کے لئے اور یکتائی کے لئے کر تو لیا مگر کیا ہمیں انہی دنوں میں ممکنہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا چیلنج درپیش نہیں۔
وطن سے محبت ہر مرتے ہوئے ذی روح کو بھی ہوتی ہے مگر جس دھرتی پر مرنا خواہشں ہو جب حالات کی وجہ سے وہاں جینا رہنا مشکل ہوجاۓ وہاں لاوارث قبروں سے بہتر ہجرت ہے۔آپ دوبارہ ان شاہ خرچیوں پر غور کریں آگے بارشوں نے ترقی کے سفر کا پول کھول دیا ہے۔ جہاں حکومت مرے ملازم کے اہل خانہ پر رزق کے دروازے بوجھ سمجھ کر بند کر ر ہی ہے وہاں ایسا خرچہ محکمہ ثقافت کا یقینی طور پر لمحہ فکریہ ہے رنگ وروغن سے اصلیت نہیں چھپتی ویسے بھی ان دنوں بارشوں کی پیشین گوئی محکمہ موسمیات کر چکا۔ آزادی فلوٹ کا ملبہ کتنے کا بکے گا؟ آزادی یہ ہے کہ نصابی فلاحی ریاست کی خدمت کرتے مارے جانے والے کی اولاد کے لئے جینے کا کوئی سامان نہیں۔ فلوٹ بھی متوقع بارش کی نذر ہو جاۓ گا، آزادی کی خوشی میں آسمان نیر بھاۓ گا۔ کامے ثقافتی پہرادار کام کریں گے۔خشک آنکھوں سے آزادی کے رنگ پتھراۓ لگیں گے۔ یہ تو بھلا ہو ارشد ندیم کا کے شکر کے آنسوؤں نے منظر رواں کیا البتہ محکمہ ثقافت کی نوکر شاہی غلامانہ ذہنیت کے ساتھ آزادی فلوٹ کے ساتھ سفر اور suffer دونوں کرے گی۔ حاکم ریاست اور وقت یہ انسانوں کی بستی ہے جہاں دنوں سے انسان اہم ہیں۔ رہی بات آزادی کی اسکے جشن کے لئے عوام کو ایسے کسی پیکج کی ضرورت نہیں جب اس سے 17-A،17,19,19-A,10-A کا حق چھین لیا ہو۔ وزیر اعلیٰ ،وزیر ثقافت ذرا سوچئے عوام کو ایسے آزادی فلوٹ سے بہتر عزت سے دو وقت کی آزاد ملک میں روٹی ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر