سرکاری ہسپتال کا ارب پتی سٹور کیپر ، محل نما گھر ، بڑی بڑی گاڑیاں
از : عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
میں نے کبھی کسی نوکری کے لیے کسی سرکار سے کبھی کوئی سفارش نہیں کی لیکن آج مجبور ہوں وہ جیسے اپنے وزیر اعظم کہتے ہیں نا کہ میں بھیک مانگنے والا نہیں ہوں لیکن مجبوری آن پڑی ہے ایسے ہی میں بھی حکومت سے ملتمس ہوں کہ میں نے کبھی کسی حکومت سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن اب کہ مجبوراً ایسا کرنا پڑ رہا ہے اور ایسا کیوں ہے تو اس کے پیچھے قصہ کچھ یوں ہے کہ چند روز قبل میں آفس میں اپنا معمول کا کام کر رہا تھا تو استقبالیہ سے بتایا گیا کہ ایک ڈاکٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں ، میں نے بلوالیا اچھی شکل و صورت کے خوش لباس انسان تھے میں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی ایسی بات کرنے آئے ہیں جس کا تعلق ہمارے ادارے کے کسی پروگرام میں بطور مہمان شمولیت بارے ہے ، اکثر ایسا ہوجاتا ہے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے سینئرز کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ٹی وی پر آنے سے اُن کا نام ہوگا ، ایسے مہمانوں کو اکثر ہم مارننگ شو میں بلاتے ہیں جن سے صحت بارے معلومات عوام تک پہنچائی جاتی ہے لیکن یہ سب سینئر تجربہ کار ڈاکٹر ہوتے ہیں جن کا ذاتی مشاہدہ بہت زیادہ اور بات میں وزن ہوتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: 14 دسمبر ہی کیوں ؟ مجیب الرحمان ٹو ،عمران خان اور حافظ قرآن
ملنے آنے والے موصوف کا فرضی نام ڈاکٹر شمعون سمجھ لیں میں نے اُن کی شخصیت کا جائزہ لیا جس میں ابھی نوجوانی کا عنصر نمایاں تھا اور وہ زندگی میں کچھ کر گذرنے کا عزم رکھنے والی آنکھوں کا مالک تھا میں نے پوچھا فرمائیے بھائی میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ، چائے پئیں گا یا ٹھنڈا وہ بولے نہیں بھائی میں بڑی آس امید کے ساتھ آیا ہوں ،ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں زندگی بھر ایمانداری سے اپنی تعلیم مکمل کی اور فرسٹ کلاس فرسٹ رہا علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور جناح میں ہائوس جاب مکمل کی اب مجھے نوکری کی تلاش ہے ، میں نے سراہتی آنکھوں کے ساتھ اُس نوجوان کو دیکھا جو زندگی میں آگے بڑھنے والے عزم و حوصلے کا حامل انسان نظر آرہا تھا مجھے اپنے معاشرے کی بدنصیبی پر بھی رونا آرہا تھا کہ کیسے کیسے خواب بنیں ہوں گے اس کی ماں نے کتنی رت جگوں کے بعد اس نے یہ منزل حاصل کی ہوگی ہائوس جاب میں 48 اڑتالیس گھنٹوں کی ڈیوٹی کی ہوگی جن مریضوں کو گھر والے بھی قبول نہیں کرتے اُن کو ہاتھوں سے اٹھایا ہوگا اور بدنصیبی دیکھئے کہ وہ آج نوکری کے لیے مجھ جیسے کم پڑھے لکھے انسان کے پاس آنے پر مجبور ہوا ہے ۔
میں نے اپنے انہی دکھی بوجھل دل کے ساتھ اُسے ٹالنے کے انداز میں کہا کہ بھائی تمہیں پتہ ہے کہ میں اتنی پہنچ والا نہیں ہوں کہ تمہاری سفارش کروں تم جیسے پڑھے لکھے انسان کو جیسی اچھے سکیل کی نوکری درکار ہوگی اُس کے لیے تمہیں سفارش بھی بڑی اور تگڑی چاہیے ہوگی کم از کم منسٹر کی سفارش سے تمہیں جاب ملے گی ۔
یہ بھی پڑھیں: موہن داس کرم چند عمران گاندھی اور نمک حرام
وہ بولا جی میں بھی جانتا ہوں کہ کس کام کے لیے کس کی سفارش کرانا چاہیے میں اتنا قابل ہوں کہ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر لگ سکتا ہوں صبح کو ہسپتال اور شام کو اپنا ذاتی کلینک چلا سکتا ہوں ،لیکن میں غریب رہتے رہتے تھک گیا ہوں مجھے جلد امیر ہونا ہے اسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں ، میری حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ شخص کیا بات کر رہا ہے جلد امیر ہونے کی میں نے کہا بھائی اس کے لیے سی ایس ایس کرو آج جنہیں تم سر سر کہتے ہو تمہیں جناب اور سر کہہ کر مخاطب ہوں گے تم جیسے مخنتی انسان کے لیے یہ امتحان مشکل بھی نہیں ہے یاداشت کا ٹیسٹ ہے جس میں کامیاب ہوئے تو ہر فن مولا بن جائو گے ، اگر یہ نہیں تو سیاست میں آجائو کامیاب ہوئے تو کوئی وزارت مل سکتی ہے اس کے لیے زیادہ بڑی ڈگری کی ضرورت بھی نہیں ہوتی جلد امیر ہو جائو گے ۔
لیکن میرا یہ بھاشن سُن کر بھی اُس کے چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثرات ظاہر نہیں ہوئے میرے خاموش ہونے پر وہ بولا بھائی یہ سب لمبے راستے ہیں ہیں آپ مجھے کسی بھی سرکاری ہسپتال کا سٹور کیپر لگوادیں ،یقین مانیں یہ سُن کر میرا دل خلق کو آتا محسوس ہوا میں نے کہا کیا کہہ رہے ہو بھائی ؟ وہ بولا میں ایک ایسے سرکاری ہسپتال کے سٹور کیپر کو جانتا ہوں جو اس وقت کروڑ نہیں ارب پتی ہے اور یہ سب اُس نے چند سالوں میں بنایا ہے لاہور کی پوش آبادی ویلنشیا میں اُس کا ذاتی رہائشی محل ہے جس کی بیسمنٹ میں سوئمنگ پول بھی ہے اُس کے ہر بچے کے نام پر لگژری گاڑی ہے وہ کسی بھی بیوروکریٹ اور اور ایم پی ایم این اے سے ذیادہ کماتا ہے اور یہ چند سال پہلے ہسپتال میں ماشکی بھرتی ہوا اور اپنی شیطان داد صلاحیتوں کے باعث سٹور کیپر بن گیا میں نے کہا لفظ درست کرلو خدا داد صلاحتیں ہوتی ہیں ، وہ بولا جی کرپشن کی صلاحیتیں خداداد نہیں شیطان داد ہوا کرتی ہیں اُس نے نیچے سے اُپر تک سب کو خوش رکھنے کا ہنر سیکھ لیا اور اب وہ کروڑوں اربوں میں کھیل رہا ہے ، اب جب اسے نکالا گیا ہے تو کوئی احتساب نہیں ہوا لیکن اُس کی جگہ خالی ہے جہاں مجھے لگوادیں گے تو میں آپ کو جلد امیر ہوکر دکھاوں گا ۔
میں نے داکٹرشمعون (فرضی نام ) کو کہا بھائی اس کے لیے کس کی سفارش چاہیے ہوگی تو وہ بولا منسٹر کی خواجہ سلمان یا خواجہ عمران دونوں کی کیونکہ اس پوسٹ پر میرے علاوہ بہت سے ڈاکٹر ، پروفیسر اور سی ایس پی آفیسر بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں ایسا موقعہ روز روز نہیں آتا میں نے ڈاکٹر صاحب کو انکار شکریے کے ساتھ روانہ کیا ، اپنا شناختی کارڈ نکال کر دیکھا تو سرکاری نوکری کی عمر والی حد عبور کرچکا تھا اس لیے ٹھنڈی آہ بھری اور اپنی سیٹ پر معمول کے کاموں میں لگ گیا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر