پانامہ کینال، چین، امریکہ اور پاکستان: ایک بڑی عالمی جنگ کی ابتدا
از: عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا اور پانامہ کینال کے حوالے سے قبضے یا "ضم کرنے" جیسے بیانات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی توسیع کی بات چھیڑ دی جبکہ امریکہ نے اپنے مستقبل کے توسیع پسندانہ عزائم کو ٹرمپ کے الفاظ میں ظاہر کیا۔ یہ تمام عوامل ایک بڑی عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں، جسے ہم تیسری عالمی جنگ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جنگ بنیادی طور پر معاشی میدان میں لڑی جائے گی، جہاں دو بڑے اتحاد آمنے سامنے ہوں گے۔ ایک طرف امریکہ، اسرائیل، اور بھارت ہوں گے، جبکہ دوسری طرف چین، پاکستان، اور روس موجود ہوں گے۔ ان دونوں اتحادوں کا مقصد عالمی تجارتی راستوں پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے، جو مشرق وسطیٰ، یورپ، لاطینی امریکہ، اور کینیڈا تک پھیلے ہوئے ہیں۔
پانامہ کینال بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو جوڑنے والی ایک اہم آبی گزرگاہ ہے۔ اس کا تصور فرانسیسی انجینئر فردینینڈ ڈی لیسپس نے پیش کیا تھا۔ 1904 میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا، اور 1914 میں یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ اس پر اس وقت تقریباً 38 کروڑ امریکی ڈالر لاگت آئی، جو موجودہ وقت کے مطابق اربوں ڈالر کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے ایٹمی حملوں سے محفوظ رہنےکی ٹیکنالوجی حاصل کرلی
فرانس کے ابتدائی منصوبے کی ناکامی کے بعد، امریکی انجینئروں نے اس منصوبے کو جدید تکنیکی مہارت کے ساتھ مکمل کیا۔ آج یہ کینال سالانہ 2 ارب ڈالر سے زائد آمدنی پیدا کرتی ہے، جو پانامہ حکومت کے پاس جاتی ہے۔ 1999 کے بعد سے پانامہ حکومت اس کا مکمل کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے، اور یہ آمدنی اس کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔
امریکہ پانامہ کینال پر دوبارہ اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، جو اس کے اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات سے وابستہ ہے۔ یہ گزرگاہ نہ صرف دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے بلکہ امریکہ کے بحری بیڑوں کو تیزی سے منتقل کرنے میں بھی مدد دیتی ہے، خاص طور پر جنگ یا بحران کی صورت میں۔ امریکہ کی حالیہ حکمت عملی کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی طاقت اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (جس میں سی پیک شامل ہے) کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین خلیج فارس، افریقہ، اور یورپ تک اپنی رسائی مضبوط بنا رہا ہے، جو اسے امریکی بحری کنٹرول سے آزاد کر دیتا ہے۔
چین نے پانامہ کینال کے قریب اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کر کے اپنی موجودگی کو مضبوط کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی چین کے ساتھ مل کر سی پیک جیسے منصوبے میں شمولیت اختیار کی ہے، جو بحر ہند میں روس کی رسائی کو ممکن بناتا ہے۔ پاکستان کے سابقہ کردار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے طویل عرصے تک امریکی پالیسیوں کی حمایت کی، لیکن حالیہ سیاسی اور عسکری قیادت نے امریکی تسلط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو دوبارہ پانامہ کینال پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا خیال آیا تاکہ چین کے اثرات کو محدود کیا جا سکے۔
دوسری جانب اسرائیل کوپہلے روز سے نہر سویز پر قبضے کی خواہش ہے ، نہر سویز بحرِ روم اور بحیرۂ قلزم کو آپس میں جوڑنے والی ایک اہم آبی گزرگاہ ہے، جو عالمی سطح پر تجارت کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ 1869 میں مکمل ہونے والی یہ نہر بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے ایک مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے، کیونکہ یہ یورپ اور ایشیا کے درمیان فاصلے کو کافی حد تک کم کرتی ہے۔ نہر کا انتظام اور اس پر مکمل اختیار مصر کے پاس ہے، اور یہ ملک کے لیے ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اس نہر سے ہونے والی سالانہ آمدنی 8 سے 9 ارب امریکی ڈالر کے درمیان ہے، جو مصری حکومت کو موصول ہوتی ہے اور ملکی معیشت کی بہتری میں استعمال کی جاتی ہے۔ اپنے محلِ وقوع اور اہمیت کی وجہ سے، نہر سویز دنیا کی اہم ترین تجارتی گزرگاہوں میں شمار کی جاتی ہے۔
اسرائیل اس نہر پر ایک بڑی جنگ پہلے ہی لڑ چکا ہے یہ جنگ 1956 میں لڑی گئی کیونکہ مصر کے صدر جمال عبالناصر نے نہر سویز پر اپنا دعویٰ کیا اور اس عالمی گزرگاہ کو مصر کا ھصہ قرار دیا ظاہر ہے امریکہ ، فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل کو یہ کیونکر قبول ہوسکتا تھا اس لیے مصر پر حملہ کردیا گیا لیکن روس کی بروقت مداخلت نے مصر کو اس عظیم نہر پر قابض رہنے کا موقعہ دیا اور یہ خواب اب پورا کرنے کے لیے غزہ پر اسرائیل حملہ آور ہے ۔
یہ تمام حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ تجارتی دنیا کے دو بڑے سرچشموں پر قبضہ چاہتا ہے اسرائیل اور بھارت اس کے تولز ہیں جبھی اس کے دفاع میں چین ،پاکستان اور روس سامنے آئے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ مستقبل کا نیو ورلڈ آرڈر چین کی قیادت میں تشکیل پا سکتا ہے، جبکہ امریکہ اپنی بالادستی کھونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ لیکن اس ممکنہ عالمی جنگ میں جو بھی اتحاد جیتے، دنیا کا معاشی نظام ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر