پھر دو راہے پر ؟
اسلم اعوان
Stay tuned with 24 News HD Android App
حکمراں اتحاد نے اعلیٰ ججز کی تقرریوں کا اختیار قانون سازوں کو دینے کے لئے 26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری کو پارلیمنٹ کی بالادستی سے تعبیر کیا تھا لیکن اب پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے سروسیسز چیفس کی مدت ملازمت تین سے پانچ سال تک بڑھانے کے علاوہ دفاعی اداروں کو شہریوں کی گرفتاری کا قانونی اختیار دیکر سویلین بالادستی کے تصور کو گہنا دیا ، حکمراں اشرافیہ جیسے عدالتی فعالیت کو ڈیجیٹل دہشتگردی اور سیاسی شورش سے نمٹنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی تھی،اسی طرح فوج کے اختیارات میں اضافہ کے لئے نئی قانون سازی کا جواز بھی بظاہر مسلح دہشتگردوں کا قلع قمع اور علیحدگی پسند تحریکوں کی سرکوبی بتاتی ہے لیکن ہمارے ہمہ دان دیوتا فطری نظم و ضبط میں پیدا ہونے والے انحراف کو قانونی تشدد کی مدد سے کم نہیں کر سکیں گے چنانچہ آئینی ترامیم اور دیگر قوانین میں تبدیلیاں اداروں کے مابین نئے تعطل کو جنم دینے کے علاوہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور سماجی آزادیوں کو محدود کرکے تنازعات کی شدت بڑھا سکتے ہیں ۔
لاریب ، ملکی تاریخ میں سیاسی جماعتوں، وکلاء، دانشوروں، صحافیوں،ادیبوں اور محنت کشوں نے قومی پالیسی پہ اسٹبلشمنٹ کی حتمی اجارہ داری کے خلاف طویل جدوجہد کی ، خاص کر پیپلزپارٹی اور نوازلیگ نے ماضی قریب میں جمہوری آزادیوں،سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے لئے گراں قدر قربانیاں پیش کیں لیکن عالمی اسٹبلشمنٹ کی ایماء پہ عدلیہ اور مقتدرہ نے طریقہ کار کے ہتھکنڈوں کا سہارا لیکر جمہوری حقوق کی تحریکوں کو ناکام بنا کر معاشرے میں سیاسی ارتقاء کی راہیں بند رکھیں،فیڈرل کورٹ کی طرف سے1955 میں ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف مولوی تمیزالدین کی قانونی چارہ جوئی کو نظریہ ضرورت کے تحت غیرموثر بنانے سے لیکر حسین شہید سہروردی کو سزا، ذولفقارعلی بھٹو کی پھانسی،یوسف رضاءگیلانی اور نوازشریف کی برطرفی عدلیہ اور ڈیپ سٹیٹ کے گٹھ جوڑ پہ روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے ۔ لہذا جب دہشتگردی کے خلاف جنگ کے اختتام پر کابل سے امریکی انخلاء کے بعد واشنگٹن ، راولپنڈی اور عدلیہ پہ محیط طاقت کی روایتی تکون ٹوٹی تو اِس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ہماری مملکت منظم معاشرے اور مربوط سیاسی نظام سے محروم تھی ، چنانچہ طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کے لئے مقتدرہ اور عدلیہ نے پی ٹی آئی کی شکل میں ایک ایسی متوازی سیاسی قوت کو پروان چڑھایا جو دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والے ایٹمی ملک کو نازی طرز کی جدید استبدادی حکمرانی کے ماڈل کی جانب لے جاتی دیکھائی دی، امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اِسی تصور کے اسیروں نے میڈیا کے ذریعے کبریائی خصوصیات کے ساتھ عمران خان کی شخصیت کو سنوار کر دیومالائی افسانوں تک پہنچایا اور خان کی شخصیت،آراء اور اہداف کے پیچھے پاکستانی عوام کو متحد کرنے کے لئے عدلیہ اور سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا لیکن عالمی طاقتوں نے اقتصادی محاصرہ کرکے اس تال میل کے تار پود بکھیر کر منصوبہ کے مرکزی کرداروں کو نشانِ عبرت بنانے کے علاوہ ہماری ریاست کے وجود کو بھی دگرگوں کر ڈالا ۔ اب یہ قوم ایک بار پھر دو راہے پہ آن کھڑی ہے اور ” دل پھر طواف کوئی ملامت کو جائے ہے“ کے مصداق ، مختصر وقفہ کے بعد مملکت کی بقاءکے تقاضے ہمیں پھر امریکہ کے ساتھ نئی ڈیل پہ مجبور کر رہے ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا حالیہ دروہ امریکہ دونوں ممالک کے مابین نئی انگیجمنٹ کی راہیں نکلنے کی خاطر ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہٹنے کی ایسی مساعی تھی جس کا مقصد انتشار کے دلدل میں دھنستی قوم کو پھر سے عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگ بنانا تھا ۔ میڈیا رپوٹس کے مطابق جنرل عاصم منیر نے امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاوس کے حکام سے ملاقاتوں جیسے وسیع تر تعاملات کے ذریعے اُن تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کے طریقوں پہ تبادلہ خیال کیا ، جو اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد ایک نئے تصورِِ خود مختیاری کے باعث بہاوکی کفیت میں ہیں ۔ پچھلی دو دہائیوں سے پاک امریکہ تعلقات کا محور افغانستان بنا رہا جس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے سوا دو طرفہ مفادات کا کوئی مواد شامل نہیں تھا ،چنانچہ اِسی خلاء میں تاریخی طور پر اپنی جغرافیائی سیاسی حیثیت اور کابل میں سپر پاور کی شکست کی حرکیات کے باعث اسلام آباد کو نئی علاقائی صف بندیوں اور سکیورٹی ترجیحات کی ازسرنو تشکیل کی طرف راغب کیا جو بلآخر مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی راہ میں حائل ہو گئی ۔ علی ہذالقیاس ، سرد جنگ کی رفاقت ، افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور پھر نائن الیون کے بعد جنگ دہشتگردی جیسے عوامل نے کئی ناقابل فہم حقائق کو جنم دیا اور کابل سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا آخری مرحلہ مستقبل کے تعلقات کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوا یعنی افغانستان میں امریکہ کی ”طویل جنگ “ پاکستان سے روابط منقطع کرنے کا وسیلہ بنی ، بیس سالوں پہ محیط اس جنگ کے دوران پاکستانی رہنما سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے پر زور دیتے رہے لیکن واشنگٹن میں اعلیٰ قیادت کا خیال تھا کہ امریکہ کی طاقتور فوج نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کو مسخر کر لے گی ۔ اسی زعم میں امریکیوں نے اسلام آباد میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں پر ”ڈومور“کے لیے دباو بڑھاتے ہوئے جنگ جاری رکھی ، امریکیوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ پاکستانیوں کو عدم استحکام کا مزہ چکھانے اور جانوں کی بھاری قیمت چکانے کے علاوہ ملک کے اندر عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ناقابل یقین سماجی تغیرات اور سنگین اقتصادی نتائج پاکستانیوں کو بھی ، پہلی جنگ عظیم کے زخم خوردہ جرمنوں کی مانند ، آتش انتقام سے لبریز قوم بنا دیں گے چنانچہ جیسے جیسے امریکہ کی جنگی کوششیں ناکام ہوتی گئیں، تعلقات میں تناو بڑھتا اور باہمی اعتماد کا رشتہ ختم ہوتا گیا ۔
ضرورپڑھیں:’ دہشتگردی میں دفاعی فورسز کو نشانہ بنانا پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے‘
اسی تناظر میں افغانستان سے امریکی انخلاء سے قبل ہی جغرافیائی سیاسی حرکیات تبدیل ہونے لگی تھیں کیونکہ چین نے صورت حال سے استفادہ کی خاطر سفارتی اور اقتصادی مصروفیات کو تیز اور اپنا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) شروع کر دیا تھا اور جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ”امریکہ فرسٹ“ خارجہ پالیسی نے خطے سے علیحدگی کا اشارہ دیا تو پاکستان سمیت علاقائی ممالک امریکی مفادات اور اثر و رسوخ دونوں میں کمی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے بیباک ہو گئے۔ یہ ماحول چین کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ سٹریٹجک تعلقات میں نمایاں گہرائی کے ساتھ موافق تھا اور یہاں تیزی کے ساتھ امریکہ کو خودغرض اور بے وفا دوست کے علاوہ تذبذب کے شکار علاقائی کھلاڑی کے طور پر دیکھا جانے لگا جبکہ چین کو زیادہ تعمیری اور پائیدار تعلقات کے لیے درکار دلچسپی، پیسہ اور ابھرتی ہوئی بین الاقوامی قوت کے طور پر ایک ایسی عالمی طاقت سمجھا گیا جو پاکستان کو اپنی سلامتی ، اقتصادی مفادات اور نئے ساورن سیاسی تصورات کو پورا کرنے میں معاون و مددگار نظر آتا تھا علاوہ ازیں امریکہ کی ہند ، بحرالکاہل حکمت عملی ، جو چین مخالف اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوششوں پہ مرکوز تھی ،کے بھی پاک امریکہ تعلقات پر واضح اثرات مرتب ہوئے تاہم بظاہر اب پاکستان، امریکہ چین تصادم کے گھیرے میں آنے سے بچنے کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہتا ہے لیکن مسلہ یہ کہ جب تک امریکہ اور چین کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اس کا اثر پاکستان کی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینے کی کوششوں کی راہ میں حائل رہے گا کیونکہ اسلام آباد صرف امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ چین مخالف کسی اتحاد یا حکمت عملی کا حصہ نہیں بن سکتا ، یہی وہ الجھن ہے جس نے دونوں ممالک کے مابین روایتی تعلقات کی بحالی کو روک ہوا ہے ۔ایک اور پیچیدہ عنصر بھارت کے ساتھ واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات بھی ہیں، امریکہ کی جانب سے بھارت کی عسکری اور سٹریٹجک صلاحیتوں میں اضافہ علاقائی عدم توازن کو بڑھانے کے علاوہ جنوبی ایشیاءمیں سلامتی کے لئے چیلنجز کو بڑھا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ راہیں مسدود ہیں بلاشبہ تعلقات کی نئی تفہیم کے لیے تعاون کے شعبے موجود ہیں تاہم چین اور امریکی کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے ہمیں جس قسم کی ذہنی لچک اور مربوط پالیسیوں کی ضرورت ہے وہ مفقود ہیں ۔ پاکستان مستقبل کے تعلقات کی پیشین گوئی ملک کی داخلی سلامتی پر کرنا چاہتا ہے نہ کہ کسی تیسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے ذیلی سیٹ کے طور پر ۔ یہ تعلقات کو سیکورٹی فوکس سے ہٹ کر دیگر شعبوں ، خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری تک پھیلانا چاہتا ہے جو اگرچہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر