الزامات ثابت ہونے پر فیض حمید کو کتنی سزا ہو سکتی ہے؟ بریگیڈئیر(ر) حارث نواز کا اہم بیان
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) ریٹائرڈ فیض حمید کے کورٹ مارشل سے گزرنے کے عمل، انکوائری اور پراسیکیوشن کے بارے میں تفصیلات بتا دیں۔
24 نیوز سےگفتگو کرتے ہوئےبریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز کا کہنا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کی کارروائی اور ان کے کورٹ مارشل کے حوالے سے کہ فوجی عدالتوں میں پیش کئے جانے والے یا کسی فوجی کے کورٹ مارشل کارروائی میں زیادہ سے زیادہ سزا14 سال کی ہے جبکہ کم سے کم سزا ایک سال کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اب یہ اس معاملے پہ انحصار کرتا ہے کہ کتنا حساس ہے تو اس حساب سے سزا ہوگی ، یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں کونسے چارجز لگائےگئے ہیں اور انکوائری کے اندر اگر اور چیزیں نکلتی ہے تو اس کے بھی چارجز لگے گے ، ہر چارج کے اندر لکھا ہوتا ہے کہ اس کی اتنی سزا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ جنرل فیض اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں تو کافی سیکریٹ تھے تو کیا ان کے پاس یا سیاسی مداخلت کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ جو کارروائی ہوئی ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہوئی سے جس میں ٹاپ سٹی کیس میں ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا تھا۔
9 مئی میں ان کے دخل اندازی کے سوال پربریگیڈئیر ریٹائرڈ حارث نواز کا کہنا تھا کہ فوج اپنے ڈسپلن میں کمپرومائز نہیں کرتی اور احتساب کا عمل انصاف پر مبنی ہوگا، ان کا کہنا تھاکہ ماضی میں اس طرح کی خلاف ورزی اور اس کی خلاف کارروائی میں ایک مثال 9 مئی کو لاہور میں ایک آفیسر نے اپنی کمزوری دکھائی اس کو سزا ہوئی تا ہم اس کا اعلان نہیں کیا گیا اس کے علاوہ 3 سال پہلے ایک 3 سٹار جرنل کو سزا ہوئی 14 سال، اور ایک اور کو سزائے موت تک ہوئی ہے، فوج میں سخت احتساب کا عمل ہے جبکہ جنرل(ر) فیض حمید کے خلاف سیاسی الزامات کی انکوائری کےحوالے سے بھی ان کا یہی کہنا تھا کہ چونکہ ادارے میں ڈسپلن اور خود احتسابی کا خاص نظام موجود ہے تو ضرور ہوگی لیکن فیض حمید کو باقاعدہ موقع دیا جائے گا جو ان کے درمیان جو افنس کے طور پہ ہوگا ، ایک پراسیکیوشن کا باقاعدہ عمل ہوگااور پھر فیصلہ ہوگا ۔
ٹاپ سٹی کے مالک کی ایف آئی آر ،ویڈیو اور تشدد کے الزامات کے حوالے سے بریگیڈئیر (ر)حارث نواز نے کہا کہ یہ ان کے خلاف ثبوت کے طور پر کام آئینگے اور شاید یہ پہلے انکوائری کا حصہ ہوگا ، ٹائم فریم پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ملٹری کورٹس میں ڈے ٹو ڈے ٹرائلز ہوتے ہیں اور سپیڈی پروسیڈنگ ہوتی ہے تو ان کا تقریبا 6 ماہ سے ایک سال تک فیصلہ ہوجائیگا، ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کسی بھی سویلین کورٹ میں اس چیلنج نہیں کرسکتا ۔
یہ بھی پڑھیں: فیض حمید کی گرفتاری پر چئیرمین پی ٹی آئی کا ردعمل سامنے آگیا