بجلی کی کمپنیاں، قائد اعظم لیتے پکڑے گئے،قائد اعظم دیکر چھوٹ گئے 

از : عامر رضا خان 

Dec 12, 2024 | 13:11:PM

Amir Raza Khan

آجکل سردیاں ہیں اور ہم بجلی کی قیمتوں کو بھلا چکے ہیں لیکن یاد رکھیں دن وہ نہیں رہے جب گرمی میں ہم بجلی کی قیمتوں کو لیکر بلبلا رہے تھے اور دن یہ بھی نہیں رہنے جب ہم بجلی کو بھول کر گیس کی کمی اور بلوں کا رونا رو رہے ہیں ، یاد رکھیں مستقبل میں کوئی حکومت کھوکھلے نعروں اور جھوٹے سہاروں پر چلائی نہیں جائے گی عوام کے غم و غصے میں بجلی کی قیمتوں کے باعث اضافہ ہورہا ہے اور یہ لاوا پکتا جارہا ہے اس دوران اب اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ایک ایسا نو وارد ادارہ ہے جس نے حقیقی معنوں میں بجلی کی دکھتی عوامی رگ پر صحیع جگہ ہاتھ رکھا ہے میری مراد سپیشل اینویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کمیٹی (آیس آئی ایف سی ) سے ہے ۔
زبردست عوامی دباؤ کو کم کرنے کیلئے حکومت نے بگاس (گنے کا پھوک) سے بجلی بنانے والے آٹھ اداروں کے ساتھ معاہدات کو از سر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ وزیر اعظم کے خاندان سے وابستہ بجلی بنانے والے کارخانے کو بھی بخشا نہیں گیا لیکن یہ اقدام آئی واش سے ذیادہ کچھ نہیں ہے جن بگاس سے بجلی بنانے والی آٹھ پاور پلانٹس کے ٹیرف کا از سر نو جائزہ لیا جائے گاان آٹھ کپنیوں میں جے ڈی ڈبلیو، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، الموعیز انڈسٹری، تھل انڈسٹریز اور چنار انرجی شامل ہیں لیکن یہ کمپنیز تو آٹے میں نمک سے بھی کچھ کم ہیں بگاس سے بجلی بنانے والے پہلے ہی سارا سال یہ کام نہیں کرتے اور اس سے پہلے ہی وہ کیپسٹی چارجز کی مد میں کچھ نہیں لیتے یعنی جو بل پر آپ کو فیول ایڈجسٹمنٹ اور کپیسٹی چارجز ڈالے جاتے ہیں اُن میں ان پاور ہاؤسز کا کچھ بھی حصہ شامل نہیں ہوتا اس لیے ان معاہدات کو دوبارہ لکھنے سے بھی عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں ملے گا ۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت میں موجود عمران کے سہولت کار ، یوتھیا ربورٹ دریافت
ریلیف ملے گا وہ اس ساری بد عنوانی کو روک کر ملے گا جس کیلئے اب پاک فوج کی زیر نگرانی بنائے جانے والے ادارے ایس آئی ایف سی نے کمر کس لی ہے ایس آئی ایف سی کی معاونت سے توانائی کے شعبے میں نجکاری  کیلئے  حکومتی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے تحت ایس آئی ایف سی  کی معاونت سے   توانائی کے شعبے کی ترقی اور مسا ئل کے موثر حل کیلئے  کاوشیں جاری ہیں ،حکومت  کی جانب سے   تین بہترین کارکردگی دکھانے والی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کے لیے اہم پیشرفت ہوئی ہے ، ڈسکوز  کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کیلئے ایس آئی ایف سی  کو مرکزی کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ابتدائی طور پر  حکومت کےما تحت  52 فیصد آئی پی پیز میں سے   اسلام آباد، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی ڈسکوز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے ، نجکاری کے عمل کو کامیاب بنانے کیلئے اسٹیئرنگ کمیٹی کی تشکیل کے ذریعے   سنجیدہ اقدامات کئیے جا رہے ہیں ، کمیٹی کا مقصد نجکاری کے عمل کو تیز تر کرنے کیلئے تمام حکومتی اداروں کے درمیان  ہم آہنگی سٹیک ہولڈرز کو آگاہ کرنے اور خدشات دور کرنے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے کمیٹی کی جانب سے ممکنہ خطرات اور چیلنجز کی پیشگی نشاندہی سے نجکاری کی کامیابی کے امکانات بڑھیں گے،کمیٹی ہفتہ وار پیش رفت کی رپورٹیں فراہم کر کے نجکاری کے عمل میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنا رہی ہے، ایس آئی ایف سی کے تعاون سے نجکاری کے ذریعے  بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور کارکردگی میں بہتری کی توقع کی جارہی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری ہسپتال کا ارب پتی سٹور کیپر ، محل نما گھر ، بڑی بڑی گاڑیاں 
اصل میں تو یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں توانائی کے شعبے کو دیمک کی طرح چمٹ چُکی ہیں جو کہیں آہستہ آہستہ اندر سے اور کہیں کھلم کھلا اپنی کمپنیوں کا سرمایہ کھا رہی ہیں ان کمپنیوں کی لوٹ مار کا اندازہ آج آنے والی ایک خبر سے ہی لگا لیں کہ لیسکو میں تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے کا فراڈ ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے ،لیسکو میں تنخواہوں کی مد میں تقریبا 30 کروڑ روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ،کمپنی نے تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے افسران کو معطل کر دیا گیا ہے ایڈیشنل ڈپٹی مینجر اکاؤنٹس بینکنگ سیکشن محمد سلیم مغل کو معطل کر دیا گیاہے، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف کو بھی فراڈ کیس میں معطل کر دیا گیا، انکشافات سامنے آنے پر لیسکو نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیکر انکوائری شروع کی ہے انکوائری کے دوران ذمہ داروں کو تعین کر کے مزید محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائیگی اور یہ صرف رسمی کارروائی ہوگی معطل تمام ملازمین دوبارہ سے بحال ہوں گے اور پھر سے لوٹ مار کا بازار گرم کریں گے یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور یہی کچھ ہوگا ، صرف لیسکو یا ڈسکوز ہی نہیں سرکاری تمام اداروں میں ایک ٹرم عام بولی جاتی ہے قائد اعظم لیتے پکڑے گئے قائد اعظم دیکر چھوٹ گئے حساب برابر۔۔۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں