اعتماد کے ووٹ میں ناکامی سے وزیر اعظم بر طرف ، نیپال میں نئی حکومت بننے کی تیاریاں شروع
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)عدم اعتماد کی تحریک میں وزیر اعظم پشپا کمال دہل کو شکست ہونے پر نیپال میں نئی مخلوط حکومت بننے کی تیاریاں شروع ہوگئی ۔
نیپال کے وزیر اعظم پشپا کمل دہل جنہیں پراچندا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 10 جنوری 2023 کو کھٹمنڈو نیپال میں پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ سے پہلے ایک تقریر کی،69 سالہ دہل پشپا کمال پران کے سب سے بڑے اتحادی لبرل کمیونسٹ یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ (یو ایم ایل) پارٹی نے گزشتہ ہفتے حمایت واپس لینے کے دباؤ ڈالا کہ یا تو وہ مستعفی ہو یا پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کریں، کے پی شرما اولی جو اس سے پہلے 2 بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں ،جون کے آخر میں وسطی نیپالی کانگریس (این سی) کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں اکثریت کے لیے کافی نشستیں حاصل کی گئیں اس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم نئی حکومت کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔
ماؤ نواز باغیوں کے سابق سربراہ پشپا کمال دہل کو اقتدار برقرار رکھنے کے لیے 275 رکنی ایوان میں ان کے حق میں کم از کم 138 ووٹ درکار تھ، ایوان میں موجود 258 قانون سازوں میں سے کل 63 نے ان کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 194 نے مخالفت میں ووٹ دیا اور ایک نے حصہ نہیں لیا،پارلیمنٹ کے اسپیکر دیو راج گھمیرے نے بیلٹ کی گنتی کے بعد اعلان کیاکہ وزیر اعظم پشپا کمل دہل کی طرف سے مانگا گیا اعتماد کا ووٹ مسترد کر دیا گیا ہے، عدم اعتماد میں وزیر اعظم پشپا کمال کی شکست سے نیپال کے پی شرما اولی کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت بنانے کیلئے تیار ہے، پشپا کمال کو 20 ماہ کی ہنگامہ خیز حکومت کے بعد عدم اعتماد کی ووٹ میں شکست ہوئی،یو ایم ایل کے قانون ساز یوگیش بھٹارائی نے کہا کہ نئے اتحاد کی ضرورت سیاسی استحکام کی ضرورت تھی۔
وزیر اعظم کے طور پر اپنے تیسرے دور میں جو دسمبر 2022 میں شروع ہوا، دہل نے3 بار اپنے اہم اتحادی پارٹنر کو تبدیل کیا اور انہیں5 بار اعتماد کا ووٹ لینا پڑا جس میں وہ جمعہ کو ہار گئے تھے،جمعے کی ووٹنگ سے قبل ایک تقریر میں پشپا کمال دہل نے کہا کہ اولی کا دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کا اتحاد جمہوری عمل کے خلاف ہے،NC پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے اور UML دوسری بڑی پارٹی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے تشویش ہے کہ یہ رجعت پسندی اور آمریت کا باعث بن سکتا ہے،" دہل نے کہا، جس کی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ سینٹر) تیسری بڑی پارٹی ہے۔
خیال رہے کہ نیپال کی سیاست اس کے دو بڑے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے ہمالیائی ملک میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ وہ اثر و رسوخ کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ نیپال 2008 میں 239 سال پرانی بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے، کے پی شرما اولی کی نئی حکومت اس کے بعد سے 14ویں حکومت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: یوگنڈا: ٹک ٹاک پر صدر کا تمسخر اڑانے پرشہری کو 6 سال قید کی سزا ، جیل منتقل