یوکرین جنگ اور یورپ کا مستقبل
اسلم اعوان
Stay tuned with 24 News HD Android App
دو سال سے زیادہ عرصہ پہ محیط یوکرین جنگ نے یورپ کے دفاعی نظام کی بے ثباتی کو عریاں اور خطہ کی معشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پہ لا کھڑا کیا۔روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی دسیوں ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے ساتھ یوکرین کی حمایت کرکے دنیا کو جوہری طاقتوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں،چنانچہ وہ فوجی مشق کے حصہ کے طور پر چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب پہ مجبور ہیں، وزارت نے کہا، مشقوں کے دوران، نان اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا ایک مجموعہ سرانجام دیا جائے گا تاہم جوہری خطرات بارے روسی انتباہ کے باوجود امریکی حکام مُصر ہیں کہ انہوں نے روس کے جوہری طرز عمل میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی، جس میں غیر اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کی تیاری یا تنصیب کی مشقیں شامل ہوں ۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال ہونے کا حقیقی امکان موجود نہیں،شاید اسی لئے مستقبل میں کسی ممکنہ روسی جارحیت کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑے پولینڈ کے صدر کی اس پیشکش کے باوجودکہ میرا ملک اپنی سرزمین پر امریکی جوہری ہتھیاروں کی میزبانی کے لئے تیار ہے، واشنگٹن نے اس خیال کو مسترد کر دیا تھا،جس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ امریکہ ، روس جیسی جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست پر براہ راست حملہ کرنے کو تیار نہیں یعنی وہ روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کو یوکرین جنگ میں اپنا بنیادی مقصد بنا چکا ہے۔اگرچہ کریملن نے بارہا اشارہ دیا کہ روس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ جوہری امتناع توڑ دے گا مگر یوکرائنی حکام اب بھی کہتے ہیں کہ، روس مغرب کو ڈرانے کے لئے جوہری ہتھیاروں بارے بڑبڑا رہا ہے، کریملن نے کہا کہ یہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، برطانوی حکام اور امریکی سینیٹ کے نمائندگان کے اُن ریمارکس کا جواب ہے جس میں میکرون نے یوکرین میں روس سے لڑنے کے لیے یورپی فوجیں بھیجنے اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے یوکرین کو روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے لندن کے فراہم کردہ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ نیٹو فوجیوں کو یوکرین بھیجنے کے بارے میں مغربی بیانات کشیدگی میں اضافہ کے نئے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں،اگر روس میں برطانوی ہتھیار استعمال ہوئے تو وہ دنیا میں ہر جگہ برٹش آرمی کو ہدف بنائیں گے۔
ضرورپڑھیں:غزہ جنگ بندی کیلئے امریکی صدر کی مشروط پیشکش
پوتن نے مارچ میں مغرب کو خبردار کیا تھا کہ روس اور امریکی قیادت میں نیٹو فوجی اتحاد کے درمیان براہ راست تصادم کا مطلب یہ ہوگا کہ کرہ ارض تیسری جنگ عظیم سے ہم آغوش ہو رہا ہے۔یوروپی مفکرین کہتے ہیں ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ یوکرین جنگ کیسے ختم ہو گی، بھاری جانی نقصان کے باوجودکوئی فریق پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں، یہ جنگ مزید کئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہے چونکہ تنازعہ کی وجوہات ماسکو کو اسٹریٹجک جواز فراہم کرتی ہیں اس لئے یوکرین کے پاس لڑائی یا ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ ماہرین کہتے ہیں مغربی حمایت پر کیف کا انحصار اس کی فوجی کارروائیوں کو دن بدن محدود کر رہا ہے کیونکہ مغربی ممالک یوکرین کو دفاع کے لئے وسائل تو فراہم کر رہے ہیں لیکن وہ ایسے ہتھیاروں کی فراہمی سے گریزاں ہیں،جو یوکرین کو روس سے جنگ جیتنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ دریں اثنا، مغرب کو امید تھی پابندیوں سے بڑھتے اقتصادی اخراجات، بلآخر روس کو جنگ سے دستبردار ہونے پرمجبور کر دیں گے لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گئی، چنانچہ آج سب سے زیادہ امکانی منظرنامہ لڑائی جاری رہنے کا ہے۔ مغربی اہل دانش سوال پوچھتے ہیں، اگر شکست کے امکان سے روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو مغرب کیا کرے گا ؟ ایک سوال یہ بھی ہے،اگر ایٹمی جنگ سے بچنے کی خاطر امریکہ یوکرین کو کوئی ذلت آمیز سمجھوتہ قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اس کا مستقبل میں نیٹو کی ساکھ یا مغرب کے جوہری ڈیٹرنس پہ کتنا اثر پڑے گا ؟ امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت یوکرین کے انہدام کا امکان بڑھتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ روسی افواج بحر اسود تک پہنچ چکی ہیں لیکن مغرب کے پاس براہ راست فوجی مداخلت کی سکت باقی نہیں بچی کیونکہ امریکہ و نیٹو سمیت کوئی بھی کابل جیسی شکست کو دوبارہ دیکھنے کا متحمل نہیں ۔
امریکی تھنک ٹینک کہتے ہیں، اگر فی الواقع کیف گرنے والا ہے تو پھر مغرب کو فوری جنگ بندی کرانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ یوکرین کے فوجیوں، سکیورٹی منیجمنٹ اور سرکاری اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کا وقت مل سکے، مگر ان شہریوں کا کیا ہوگا ؟ جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، کیا مغرب لاکھوں اضافی یوکرائنی پناہ گزینوں کو لینے کے لیے تیار ہے؟۔کیا مذاکرات کی کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ کیونکہ مذاکرات بھی دراصل تنازعات کا تسلسل ہیں، متبادل نہیں ہوتے۔ اس طرح، وہ شاذ و نادر ہی اس سے زیادہ فراہم کر سکتے ہیں جو فوجی طاقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ہر مذاکرات کئی نئے اسٹریٹجک سوالات کو جنم دیتے ہیں یعنی کیا روس کے لئے یوکرین کے سر تسلیم خم کرنے کے سوا، کوئی اور تصفیہ قابل قبول ہو گا ؟ اگر نہیں تو آخر اس کھیل میں مغرب کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیا مغرب، یوکرین میں روس کے سفاکانہ کنٹرول کے نتائج دیکھنے کا منتظر ہے ؟ ۔اگر یوکرائنی فوجیوں کو نکالا جاتا ہے تو کیا وہ مغربی افواج میں بھرتی ہوسکتے ہیں؟۔کیا مغرب روس کے ساتھ جنگ کے بعد اچھے تعلقات کی بحالی کی توقع کر سکتا ہے؟ بلاشبہ یوکرین میں واضح مغربی ناکامی کے بعد اس طرح کے تعلقات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ مغرب نے سرد جنگ کے دوران مڈل ایسٹ میں مصر، لیبیا ،شام اور عراق کو چھوڑنے کے عوض ایک خفیہ ڈیل کے ذریعے سوویت یونین کو 1953 میں مشرقی جرمنی، 1956 میں ہنگری اور 1968 میں چیکوسلواکیہ پہ قبضہ کا موقعہ فراہم کیا تاہم بظاہر تعلقات میں سرد مہری اور جمود قائم رکھا لیکن اب تو جمود کے مخالف تصادم میں واپسی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ کچھ کا مشورہ ہے کہ مغربی ممالک روس سے کچھ پابندیاں اٹھانے کے بدلے یوکرینی باشندوں کو یوکرین سے نکالنے کی راہ بنا سکتے ہیں۔تاہم عام خیال یہی ہے کہ یوکرین منہدم ہو جائے اور یورپ روسی گیس استعمال کرنے کی طرف واپس پلٹ بھی جائے تو پوٹن کےلئے اپنے وسیع عزائم کو ترک کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
کیا مغرب پوٹن کے مستقبل کے اہداف،جیسے مالڈووا اور جارجیا، کی مدد کے لیے تیار ہے؟کچھ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کو الگ نہیں کرنا چاہیے بلکہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے لیے اتحادی بنانا چاہیے اور امریکہ کو ایشیا میں ناگزیر جنگ(غزہ سے پاکستان تک) کی تیاری کرتے ہوئے یوکرین پر توانائی اور وسائل ضائع نہیں کرنا چاہیے لیکن صورت حال برعکس بھی ہو سکتی ہے، امریکیوں کو ہمیشہ یورپ میں مرضی کی کمی کی شکایت رہی لیکن کیا امریکہ ، یوروپ کا قابل اعتماد اتحادی رہے گا ؟ امریکی پہلے ہی یوکرین کو فوجی اور اقتصادی امداد جاری رکھنے بارے منقسم ہیں، 48 فیصد فوجی حمایت کے حق اور 29 فیصد مخالف ہیں۔یوکرین میں ناکامی بائیڈن انتظامیہ کی ساکھ کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی کیونکہ یوکرین میں صریح ناکامی کے بعد کا امریکہ آسانی سے عالمی تنہائی کی طرف ڈھلک سکتا ہے۔
اگر یوکرین میں جنگ 2024 کے آخر تک جاری رہی تو امکان ہے کہ امریکی حمایت وہاں انتخابی ایشو بن جائے گی لیکن کیا انتخابی مہمات کا جُز بننے سے قبل دسمبر تک جنگ اپنی موجودہ شدت برقرار رکھ سکتی ہے؟ یوکرین میں جنگ کا نتیجہ نیٹو کے مستقبل کے لیے بھی اہم ہو گا، جو روسی جارحیت کو روکنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے باوجود آج بھی کامیابی سے کوسوں دور کھڑا ہے، ناکامی کی صورت میں نیٹو کی تنظیم بری طرح متاثر ہو گی۔کچھ اراکین طاقت کے مظاہرہ کی خاطر اتحاد کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ روس کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یوکرین پر جارحیت اور نیٹو کے رکن پر حملہ میں بہت فرق ہے، جو کہ خود بخود اُس آرٹیکل 5 کا اطلاق کرتا ہے، جو باہمی دفاع کی ضمانت ہے لیکن اگر یوکرین شکست کھا گیا تو کیا نیٹو پھر بھی قابل اعتبار رہے گا ؟ بلاشبہ یوکرین جنگ نے پوری دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا۔امریکی عزائم یوروپ کو کسی ان دیکھی تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں،جس سے مغرب کا زوال اور بھی زیادہ خطرناک عناصر کے لیے راستہ کھول سکتا ہے، روس کے علاوہ چین کی تعمیری پیشقدمی کو بھی جارحانہ اداکارکے طور پر دیکھا جا رہا ہے،اس لئے طاقت کے حصول کا مقابلہ جوہری جنگوں کا باعث بن سکتا ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر