مریم اورنگزیب نے مریم نواز کا پرس کیوں اٹھایا؟

عامر رضا خان 

Nov 12, 2024 | 15:16:PM

Amir Raza Khan

مریم اورنگزیب نے مریم نواز کا پرس اٹھایا ذاتی ملازم ہو تو ایسا اور ایسے کئی ایک سوال صرف ایک تصویر کے بعد سوشل میڈیا پر اٹھائے جائیں اس پر بھی بات کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے یہ کہ ، محاورہ تو ہے کہ عقل بڑی یا بھینس ؟ اس سوال نما محاورے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ عقل گو ایک چھوٹی سی غیر محسوس چیز ہے لیکن اسی عقل نے انسان کو زمین سے خلاء میں اور اب ستاروں کے اور سے اور جہانوں کا سفر کرادیا لیکن حجم میں بڑی بھینس ہو یا ہاتھی سب انسان کی عقل کے تابع فرمان ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ہمیشہ یہ بات محسوس ہوئی کہ حکومت کے ایوانوں میں پہنچنے والے آج بھی بھینس کو عقل سے بڑی سمجھتے ہیں اسی لیے کوئی بھی پالسی مرتب کرتے وقت عقل سے نہیں حجم سے کام لیتے ہیں ۔
اب صرف سموگ کو ہی دیکھ لیں کہ اس وقت پورا پنجاب اس سموگ کی لپیٹ میں ہے دنیا کے تمام آلودہ شہروں میں پنجاب کے چند شہر جی ہاں ایک شہر لاہور ہی نہیں ملتان ، رحیم یار خان ، بہاولپور ، راولپنڈی گو شرقاً غرباً تمام ہی شہر اس قاتل سموگ کی لپیٹ میں ہیں لیکن حکومت پنجاب ابھی بھی آئیں بائیں شائیں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے پنجاب کی ملکہ مریم نواز اپنے مصاحبین جن میں چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان  اور سنیئر وزیر ماحولیات مریم اورنگزیب شامل ہیں اس وقت قائد مسلم لیگ ن جناب نوازشریف کی سربراہی میں جینوا سوئٹزر لینڈ کے دورے پر ہیں اور اُن کی عدم موجودگی میں پنجاب کی فضا مزید تعفن زدہ اور کاربن زدہ سی ہوگئی ہے ، مریم نواز جب سے وزیر اعلیٰ پنجاب بنی ہیں انہوں نے بہت کم غیر ملکی دورے کئیے ہیں اور اپنے والد کے ہمراہ جانا اُن کا پیدائشی حق ہے جو اُن سے کوئی چھین نہیں سکتا لیکن اصل مسلہ یہ ہے کہ اس زہریلے ماحول میں سنیئر وزیر ماحولیات  اور چیف سیکرٹری پنجاب کا صوبے سے باہر ہونا معنی خیز ہے یہ تو وہ وقت تھا جب ہم سب کو سر جوڑ کر آنے والے سالوں کے لیے اپنی آئندہ نسلوں کو بچانے کی پالیسی ترتیب دینا چاہیے تھی لیکن اس حوالے سے اہم کام کرنے والی شخصیات ملک سے باہر ہیں یہ دورہ نما سیر سپاٹا اس سارے سیاپے کے بعد بھی کیا جاسکتا تھا اسے اس نازک وقت میں ہی کرنا کیا ضروری تھا ۔
اس سارے دورے کو شائد اتنا ہائی لائیٹ بھی نا کیا جاتا لیکن ایک تصویر نے جلتی پر تیل کا کام کیا تصویر کیا تھی ایک سوشل میڈیائی ہنگامہ تھا جو کھڑا ہوگیا تصویر میں آگے آگے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف چل رہے ہیں اور جیسے ہم بچپن میں کھیلا کرتے تھے میری میری بکریو جواب ملتا تھا میں میں اسی طرح دوسرے نمبر پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈالے چل رہی ہیں اُن کے پیچھے مریم اورنگزیب ، پھر نواز شریف کے ذاتی معالج اور پھر مریم نواز کے سیاسی اتالیق  سینیٹر پرویز رشید چل رہے ہیں لائن اس سے بھی لمبی ہے لیکن دیگر افراد کو میں نہیں پہچانتا اس لائن کو دیکھ کر ایک طرح کی تازگی کا احساس بھی ہوتا ہے کہ یہ سب  تو کم از کم صاف فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔

ضرورپڑھیں:پاک، بھارت جنگ، گولہ باری کا آغاز ہوگیا 
اس تصویر پر ہنگامہ جس بات پر کھڑا ہوا وہ یہ تھا کہ سنیئر وزیر مریم اورنگزیب نے ایک نہیں دو خواتین والے بیگ اٹھا رکھے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں بیگ اُن کے اپنے ہوں لیکن مریم نواز کبھی بیگ کے بنا باہر نہیں نکلتیں اس لیے یقین سے تو نہیں لیکن خیال غالب سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ مریم اورنگزیب کے ہاتھ میں موجود دوسرا بیگ مریم نواز شریف کا ہی ہوگا اب اس تصویر کو لیکر خوب ادھم مچایا جارہا ہے جس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں مریم نواز شریف مریم اورنگزیب سے بحرحال عمر میں بڑی ہیں اور چھوٹوں کا یہی کام ہے کہ دوران سفر بڑے بوڑھوں کا خیال رکھیں اب اگر مریم اورنگزیب نے اپنے سے بڑی عمر کی خاتون کا بیگ اٹھا لیا تو کیا برا کیا ۔
جو برا کیا وہ یہ کہ ابھی تک ہم اگلے پانچ سال کی کوئی پالیسی نہیں بنا سکے سموگ دو ماہ رہے گی اور چلی جائے گی اور ہم ذیادہ زور شور سے اپنی فضا کو مزید آلودہ کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہوجائیں گے ، پھر وہی ہوگا بقول شاعر ہم نوحہ کناں ہوں گے کہ دیکھیئے دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ لاہور کے بارے میں شاعر کا یہ شعر بھی سچا ثابت ہوگا کہ 
"گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے"
جی ہاں اس سے پہلے کہ لاہورئیے بے موت ماریں جائیں کس نے کس کا پرس اٹھایا حکومت بھینس نہیں عقل کا استعمال کرئے اور سموگ کی جامع پالیسی بنا لے ۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں