فیض حمید کی گرفتاری ، جشن آزادی کا بڑا تحفہ
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
(عامر رضا خان) شاعر فیض احمد فیض کیا پائے کے "جوتشی" یا نجومی تھے کہ سالوں پہلے ایک نظم ایسی لکھی جو کل حرف بہ حرف ثابت بھی ہوگئی ایک ایک شعر اور ایک خیال سوچنے سمجھنے والا ہےاور یوں لگتا ہے کہ جیسے فیض احمد فیض کو روحانی انداز میں موجودہ حالات دکھائے جا رہے تھے, نظم کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے
؎ گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
دیکھیں کیسے اڈیالہ میں بیٹھا ایک انسان پکار رہا تھا اُس ماضی کو جو وہ ایک بار دیکھ چکا اور اب بار بار دیکھنے کی تمنائے "حمام بازگشت " میں پکار رہا تھا کہ چلے بھی آو کہ گلشن کا یعنی "گوگی" کا کاروبار چلے اگلا شعر سنیں ؎
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
یہ بھی پڑھیں:حافظ کی اٹھان سے پی ٹی آئی خوف زدہ کیوں ہے؟
واقعی جہاں فریج بھی نہیں وہاں اداسی تو ہوگی قفس (جیل) واقعی بری جگہ ہے اور اگر بات آرٹیکل 6 کی ہو تو یہ اور بھی بری جگہ ہوتی ہے جہاں بیٹھ کر بندہ وہ یاد کرتا ہے کہ کیسے ایک دوست نے زور زبردستی سے اقتدار کی منزلوں تک پہنچایا اور اگلے شعر میں فیض احمد فیض کمال ہی کرتے ہیں یہ شعر کی معراج ہے ؎
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
کہ وہ بھی کیا دن تھے جب محبوب " فیض حمید" کی آواز پر صبح ہوتی تھی اور اس کی محبوب کے ماتھے پر لٹکتی زلفوں پر شام بنی گالہ کہ دن اور رات جس میں فلور نمبر دو یا تین کی رنگین راتیں بسر ہوتی تھیں اب آئیں اگلا شعر ؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گےغمگسار چلے
اڈیالہ سے اس سے ذیادہ درد اور غم کا نقشہ کھینچا نہیں جاسکتا تھا جو کھینچا گیا اور اب بھی اُسی نام کی مالا جپی جارہی تھی کہ جس کے فیض سے پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کی کوشش کی گئی ؎
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
یعنی اب تو اسیر اڈیالہ نے حد ہی کردی اور بتایا کہ جو ہم پہ گزررہی ہے اُس کا ذکر نہیں لیکن ہماری جدائی کے آنسو اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے تمہاری نسلوں کو اتنا کما کر دیا ہے کہ تمہارا انجام تک سنور گیا ہے ۔
یہاں تک تو فیض احمد فیض قیدی نمبر 804 کا بیانیہ بیان کرتے ہیں لکن آخری شعر میں وہ بیان کرتے ہیں جو کل ہوا جس میں انہوں نے اُس لمحے کی عکاسی کی ہے جب فیض حمید گرفتار ہوئے ؎
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
یعنی اپنے محبوب لیڈر کے بلاوئے پر اب وہیں پہنچ رہے ہیں جہان قفس اداس تھا ،میں بار بار یہ اشعار پڑھ رہا تھا اور ہر بار مجھے عمران فیض حمید یاری دوستی کے لمحات اور موجودہ جزبات سمجھ آرہے تھے ، کیسے کیسے جتن نا کیے گئے ۔ آزاد عدلیہ کو دھمکایا گیا بقول شوکت صدیقی کے کہا گیا " کہ آپ چاہتے ہیں ہماری دو سال کی مخنت ضائع ہوجائے " اور پھر پانامہ سے اقامہ نکال لانے کا فارمولا بنایا گیا ،سیسلین مافیا کی اصطلاح گھڑی گئی ،جھوٹ کے سوشل میڈیا کا ایسا سمندر بہایا گیا کہ جس کے سنامی نے سچ کو اپنے تئیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈبو دیا تھا لیکن ایسا نا ہوا ۔
ضرورپڑھیں:وزیر اعظم ارشد ندیم ، تبدیلی کی نوید ارشد ندیم
حافظ عاصم منیر نامی ایک ایسے انسان کا ظہور ہوا جس نے جھوٹ کے سارے بُت پاش پاش کردئیے اور 77 ویں یوم آزادی پر وہ تحفہ دیا جس کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا یعنی فوج کے اندر خود احتسابی کا عمل کا آغاز اب کوئی مقدس گائے نہیں کہ وہ وردی پہنے اور ٹاپ سٹی کے مالکان کو یرغمال بنائے ،زمینوں کے قبضے سے نجف حمید کے زرخیز پٹواری زہن کو جلا بخشے اور اگر اُس دور کا جائزہ لیا جائے تو کھمبیوں مانند رہائشی کالونیاں بنائی جارہی تھیں اور پلازے کھڑے کیے جارہے تھے لیکن اب اس دھندے کا راستہ کسی حد تک روک لیا گیا ہے جاری کردہ پریس ریلز کے مطابق ،جنرل ر فیض حمید ٹاپ سٹی کیس معاملہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی گئی اور اس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر پاک فوج کی تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع ہوگیا ۔
یہ اس جشن آزادی کا بہت بڑا تحفہ دیا گیا ہے اب سانحہ نو مئی بھی کھلے گا یہ ایک واضع میسیج ہے اُن یو ٹیوبر یاجوج ماجوج کے لیے جو روزانہ اڈیالہ جیل کی دیواروں کو چاٹ کر اپنے اندر کے شیطان کو آزاد ہوتا دیکھنے کا بتا کر سونے چلے جاتے ہیں ، یہ پیغام ہے حاضر سروس اور غیر حاضر سروس افسران ، سیاستدان اور جوڈیشری کے لیے کہ اب کہ جو احتساب ہوگا وہ ہر اُس شخص کا ہوگا جو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے یہ دہشت گرد وردی میں ہوں کالے کوٹ میں یا وردی میں جو پاکستان کو نقصان پہنچائے گا پکڑا جائے گا اور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر