جہاں دنیا بھر کے ممالک تیز ترین انٹرنیٹ سروس کی طرف بڑھ رہے تو پاکستان میں نظام الٹا چل رہا ہے،یہاں انٹرنیٹ کی رفتار ایسے ہے جیسے گھوڑوں کی ریس میں کچھوا شامل ہوگیا ہو ،سوشل میڈیا تو ایسے ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں ۔کتنی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان بھر میں 17 فروری سے بند ہونے والی ’ایکس‘ کی سروس تاحال بلا تعطل بحال نہیں ہوسکی ہے،شرمندگی کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اہم عہدیدار بھی جواب دینے سے قاصر ہیں اور لاعلم نظر آتے ہیں کہ اسے کیوں بند کیا گیا؟بلکہ اقتدار پارٹی کے رہنماء بھی اس کو کھولنے کے حق میں آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔
اب ایک ظلم یہ کیا گیا ہے کہ ایکس اور دیگر سوشل میڈیا ایپس تک رسائی کیلئے صارفین وی پی این کا سہارا لے رہے تھے لیکن اب وی پی این کی کنیکٹیویٹی میں بھی صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،لگتا ایسے ہے جیسے اس کو بھی پاکستان میں بند کردیا گیا ہے،اگست میں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے وی پی این کے استعمال پر سختی شروع کردی تھی جس کا مقصدپہلے سے پابندی کا شکار ’ ایکس‘ تک رسائی کو محدود کرنا تھا،جب وی پی این کے ذریعے رابطے میں خلل آیا تو بتایا گیا کہ گزشتہ اتوار کو 24 سے زائد ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کو بلاک کرنے کیلئے 6 گھنٹے کا ٹرائل کیا ہے،پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے ملک میں غیر رجسٹرڈ وی پی این بلاک کرنا شروع کر دیے ہیں،پی ٹی اے ذرائع کے مطابق وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ کے لیے اُنہیں عارضی بلاک کیا جا رہا ہے، غیر رجسٹرڈ وی پی اینز سیکیورٹی رسک ہیں۔
اب جیسا کہ پاکستان نے ایکس پر پابندی لگائی ہوئی ہے،وی پی این کے بغیر اِس تک رسائی حاصل کرنا نا ممکن ہے ،اب ایسے میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ پاکستان کے ایکس پر پابندی لگانے سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں؟ امریکہ کے نو منتخب نائب صدر تو کچھ ایسا اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی نائب صدر ایکس پر پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپی یونین کے کسی عہدیدار نے ایلون مسک کو دھمکی آمیزخط بھیجاجس میں کہا گیاکہ اگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کوپلیٹ فارم مہیا کریں گےجوشایداگلے امریکی صدرہوں توہم آپ کوگرفتارکریں گے،اب ایلون مسک گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں یہ ان کا مسئلہ ہے،مگر ہمارا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہے کہ یہاں بھی ایک طبقے کو دبانے کیلئے اور ان کا گلہ گھونٹنے کیلئے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جارہی ہیں،اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان ایکس پر پابندی نہیں ہٹاتا تو کیا اُس کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایسی ہی کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟کیا امریکی نائب صدر نے پاکستان سمیت اُن ممالک کو پیغام دیا ہے جو ایکس پر پابندی کے حامی ہیں اگر ایسا ہے تو پھر آنے والے وقتوں میں امریکا پاکستان سے ایکس سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور اگر پاکستان مطالبہ نہیں مانتا تو امریکا اور پاکستان میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
ضرورپڑھیں:بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ،پاکستان ڈٹ گیا،آئی سی سی میں ہلچل
حکومت کی جانب سے وی پی این تک رسائی کو بلاک کرنے پر اُس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے،حکومت پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے سب دروازے بند کرنا چاہتی ہےیعنی حکومت کا وی پی این بلاک کرنے کا اقدام سیاسی نوعیت کا قرار دیا جارہا ہے۔اب تحریک انصاف نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس تک رسائی کو بلاک کرنے پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کو ختم کرنے کی کھلی کوشش قرار دیا ہے،تحریک انصاف کا کا بیان اُس وقت سامنے آیا ہے ۔ جب متعدد صارفین نے وی پی این کے استعمال میں شکایت کرتے نظر آئے ہے ۔جبکہ حکام نے اسے مختصر وقت کے لیےپیش آنے والی رکاوٹ قرار دیا ہے اور اِسے سسٹم کے ساتھ مسئلے سے جوڑا ہے،اب حکومت تو یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کو فلٹر کرنے کیلئے یہ سب اقدامات کر رہی ہے لیکن آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اُس دور میں سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کو چاہئے کہ وہ نفرت انگیز مواد کو فلٹر کرنے کیلئے مؤثرا قدامات کرے ۔لیکن سوشل میڈیا ایپس کو مکمل بند کردینا کسی طور بھی مناسب عمل نہیں ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو ’ففتھ جنریشن‘اور باجوہ ڈاکٹرائن کے بڑے چرچے تھے۔ایک منصوبے کے تحت اس مخصوص نظریے کو نوآموز ذہنوں میں انڈیلا گیا ،اس وقت نوجوانوں کو ’وارئیرز‘قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ جو برتری پاکستان اور اس کے ادارے کو حاصل ہے وہ بھارت کو بھی نہیں،پھر وقت بدلا،حالات بدلے اور جذبات بھی بدل دئیے گئے۔جو محب وطن تھے وہ غدار ٹھہرے اور جو کرپٹ تھے وہ’صادق اورامین‘بن گئے۔زبان وبیان کل بھی کنٹرول کیا جارہا تھا اور آج بھی ۔
قلم ،مائیک ،کی بورڈ کو کنٹرول میں رکھنے والے چاہتے کیا ہیں؟ ان کی چاہت ہے کہ یہ ان قصیدہ خواں بنے رہیں،جو ہم کہیں وہی سنیں،جو ہم بولیں وہی لکھیں،یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سوال اٹھانے کے قابل نہ رہے ،یہ چاہتے کہ کوئی دانش کی بات نہ کرسکے،یہ چاہتے ہیں کہ جو ہم کہیں اسی کو سچ سمجھ کر قبول کیا جائے،یہ بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں ، عہد حاضر کے بچے دس سال سے پیچھے نہیں سوچتے ،یہ بچے ’’لانگ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں، 10 سال سے پیچھے ان کے دماغ بند ہوجاتے ہیں۔ پہلے کیا سے کیا ہوتا رہا ؟ کچھ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن یہ بچے کہتے ہیں کہ
ہمیں ہی جرات اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر