یقین تو نا آپ کو آئے گا نا ابھی تک مودی سرکار کو آرہا ہے کہ بھارتی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان گوتم گھمبیر نے بھارت کی مودی سرکار کے منہ پر ایسا تھپڑ رسید کیا ہے کہ جس کی گونج سرحد پار پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں جہاں جہاں کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے میں سنی گئی ہے۔ یہ واقعہ ہے کیا؟ اور کہاں یہ تھپڑ مودی سرکار کی فاشسٹ کرکٹ دشمنی کے منہ پر رسید کیا گیا ہے، یہ بتانے سے پہلے اگر پاک، بھارت کرکٹ تعلقات کی بات کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہے، پاکستان اور بھارت کےمابین کرکٹ کاٹاکرا ہمیشہ ہی عالمی سطح پر بڑی دلچسپی کاباعث رہا ہے اور دونوں ملکوں کی عوام میں اگر کھیلوں کے حوالے سے کوئی قدر مشترک ہے تو وہ کرکٹ ہی ہے اور اس تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فروری 1987 میں پاکستان میں ضیا الحق حکومت میں جب سرحدی تنازعہ شدت اختیار کرگیا تو جنرل ضیاالحق نے پاک، بھارت سیریز میں جے پور کا میچ دیکھنے گئے اور پھر بڑا خطرہ ٹل گیا، ضیا الحق راجیو گاندھی نے ہاتھ ملایا اور یوں کرکٹ ڈیپلومیسی کی نئی اصطلاح نے خطے میں امن کی بنیاد رکھی جو زیادہ عرصہ نا چلی خود راجیو گاندھی اور ضیاالحق دہشت گردی کا شکار ہوئے اور اس کے بعد بدقسمتی سےدونوں ممالک کے تعلقات میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے بھارتی کرکٹ ٹیم کا پاکستانی سرزمین پر آنا ایک نادر اورمشکل واقعہ بن چکا ہے۔
مختلف مواقع پر بھارتی ٹیم کے پاکستان آنےسےانکار کی کئی وجوہات رہی ہیں جن میں سیاسی، سیکیورٹی اور دیگر انتظامی مسائل شامل ہیں،سب سے پہلے بھارتی کرکٹ ٹیم نے 1990 میں پاکستان کے ساتھ ایک سیریز کھیلنے سے انکار کیا جس کی سب سے بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی تھی، یہ دور کشمیر کے مسئلہ پر تنازعات اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا تھا۔ اس دوران بھارتی حکومت کاموقف تھا کہ جب تک پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہوگی، بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ نہیں کرے گی،2000 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاکستان آنے کی بات کی گئی۔مگراس وقت بھارتی کرکٹ بورڈ نے یہ دورہ ملتوی کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کشیدگی تھی۔ اگرچہ دونوں ممالک کی حکومتوں نےکرکٹ کے ذریعے روابط کو بہتر بنانےکی کوشش کی لیکن سیکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی تناؤ کےباعث اس سیریز کاانعقاد ممکن نہ ہوسکا۔
ضرورپڑھیں:پاک، بھارت جنگ، گولہ باری کا آغاز ہوگیا
بھارت کی کرکٹ ٹیم نے2004 میں پاکستان کا مختصر دورہ کیا۔جسے کرکٹ کی دنیا میں ایک تاریخی لمحہ سمجھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ کسی بڑی تبدیلی کی علامت ثابت نہ ہو سکا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے کرکٹ روابط پھر سےسرد پڑ گئے، 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید کشیدگی آئی۔اور اس کےاثرات کرکٹ پر بھی پڑے 2010 میں بھی بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آنے سے مسلسل انکار کیااور جواز یہ تراشا کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال غیر محفوظ ہے۔اس لئے بھارتی ٹیم پاکستان کادورہ نہیں کرےگی۔
2020 میں بھارت اور پاکستان کے کرکٹ تعلقات میں مزید سرد مہری آئی اور بھارتی کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ان کی ٹیم پاکستان کے ساتھ کسی بھی دو طرفہ سیریز میں حصہ نہیں لے گی اور آئی سی سی ایونٹس میں ہی دونوں ٹیموں کا سامنا ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی داخلی سیاست اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی تھی ،گزشتہ برس جب بھارت میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا تو پاکستان کرکٹ ٹیم نےاس ایونٹ میں حصہ لیا تاہم بھارت نے پاکستان کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیااور یہ موقف اختیار کیا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بھارٹی ٹیم کوپاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، پاکستانی کرکٹ ٹیم کےبھارت جانےکےباوجود بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنے سے گریز کیا۔
یہ بھی پڑھیں:صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
چیمپئنز ٹرافی پر بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستان کے دوٹوک موقف پر آئی سی سی بھی پریشان ہےچیئرمین پی سی بی محسن نقوی کے سخت موقف کے بعد آئی سی سی کے پاس آپشنز محدود ہیں، پی سی بی پہلے ہی ہائبرڈ ماڈل کے آپشن کومسترد کرچکا ہے، ایونٹ کو پاکستان سے منتقل کرنا بھی آئی سی سی کیلئےایک چیلنج ہوگا اور اس کیلئے ٹھوس وجوہات کا تعین کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق صرف ایک ٹیم کی وجہ سےٹورنامنٹ متاثر کرنے پر دیگر بورڈز کو بھی تحفظات ہیں، چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کی جگہ دوسری ٹیم کو شامل کرنے کاآپشن بھی موجود ہے۔ ذرائع کاکہناہےکہ پاکستان نےآئی سی سی کو ای میل کر دی ہے جس میں بھارت کے انکار کی وجوہات، اس کی بنیاد اور شواہد فراہم کرنے کاکہا ہےاور چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی کرانے پر زور دیتے ہوئے حکومتی موقف سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ پی سی بی نے آئی سی سی کوای میل میں بھارتی موقف کی وضاحت کیلئےسوالنامہ بھی بھیجا ہے اور اب اس کا انتطار کیا جائے گا جس کے بعد جواب الجواب اور وہ بھی ایسا جواب کہ دشمن لاجواب ہوجائے تیار کیا جائے گا۔
اب آئیں واپس تھپڑ کی جانب جو گوتم گھمبیر نے پوری گھمبیرتا کے ساتھ ایک فین کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ بھارتی ٹیم پاکستان کیوں نہیں جارہی کے جواب میں کہا کہ اس کے ذمہ دار وہ نہیں جو ہیں اُن سے پوچھا جائے ، یہ بھارت کے کھیلوں میں سیاست داخل کرنے کی پالیسی کہ منہ پر وہ طمانچہ ہے جس نے ثابت کیا کہ کھلاڑی اور شائقین اس دورے کا بے چینی سے انتطار کر رہے ہیں رکاوٹ صرف مودی سرکار کی شدت پسندانہ سوچ ہے ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر