(ویب ڈیسک)زندگی میں سب کے ساتھ اچھے برے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اچھے واقعات سوچ کر ہم اچھا محسوس کرتے ہیں جبکہ برے واقعات پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
بعض دفعہ انسان کے ساتھ کچھ ایسے واقعات یا کوئی ایسی یادیں ہوتی ہیں جو اسکے جذبات سے جڑی ہوتی ہیں جن کو وہ چاہ کربھی بھلا نہیں پاتا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ تلخ یادیں انسان کے ذہن سے نہیں نکل پاتی جس کی وجہ سے وہ انسان کو دماغی طور پر کافی نقصان پہنچاتی ہیں اور ہر وقت پریشان کرتی ہیں۔اس سب کی وجہ سے انسان ڈپریشن، بےچینی، چیزوں میں دلچسپی کھونا، خوفزدہ سوچیں اور سراور جسم کے درد جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی اس کے اَن گنت اثرات اور بیماریاں موجود ہیں ۔ یہ بیماریاں انسان کو دماغی طور پر ختم کردیتی ہیں۔
اس سب کے علاج کے لیے پہلے بھی بہت سے طریقے موجود ہیں جس میں سائیکو تھیراپی سب سے اچھا علاج ہے،ادویات کے ذریعے بھی اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس سب چیزوں کے شکار مریض کو مستقل طور پر ڈاکٹرز اپنی نگرانی میں رکھ کر علاج کرتے ہیں۔
تاہم سائنسدانوں کی جانب سے ایک ایسی پیش رفت کی گئی ہے جس سے دماغی صحت کے مسائل کے علاج میں مدد مل سکتی ہے،سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ خوشگوار یادوں کو واپس لانا اور بری یادوں کو مٹا دینا اب ممکن ہے۔
ایک تجربے میں محققین نے 37 شرکاء سے بے ترتیب الفاظ کو منفی تصویروں کے ساتھ جوڑنے کو کہا، بعد میں، انہوں نے بری یادوں کو کمزور کرنے کے لیے ان میں سے آدھے رابطوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
محققین نے کہا ہم نے اس تجربے میں دیکھا کہ ہمارے طریقہ کار نے لوگوں کے لیے بری یادوں کو یاد رکھنا مشکل بنا دیا، اور اس کے بجائے انہیں خوشگوار یادوں کے بارے میں سوچنے میں بھی مدد ملی‘‘۔محققین کی جانب سے تحقیق میں مطالعہ کے لیے منفی یا مثبت کے طور پر درجہ بند تصاویر کے ڈیٹا بیس کا استعمال کیا گیا، ان تصاویر میں زخمی اور جنگلی جانوروں اور پرامن مناظر یا مسکراتے ہوئے بچوں جیسی خوش کن تصاویر شامل تھیں۔
پہلے روز تحقیق کے شرکاء نے منفی تصویروں کو بنے ہوئے بے معنی الفاظ سے جوڑنا سیکھا۔ نیند لینے کے بعد محققین نے رضاکاروں کے ذہنوں میں ان منفی تصویروں کو مثبت میں بدلنے کی کوشش کی۔
پھر دوسری رات رضاکاروں نے سوتے ہوئے بنائے گئے الفاظ سنے۔ یہ نیند کے ایک مرحلے کے دوران کیا گیا تھا جو یادوں کو ذخیرہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس دوران محققین نے رضاکاروں کی دماغی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کی،جب رضاکاروں نے اپنے بنائے ہوئے الفاظ سنے تو ان کے دماغی سرگرمی میں سائنسدانوں کو اضافہ دیکھنے کو ملا، خاص طور پر جب انہوں نے خوشگوار یادوں سے جڑے الفاظ سنے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دماغ جذبات پر کام کر رہا تھا۔
ضرورپڑھیں:ٹک ٹاک پر پابندی سے قبل ایک اور چینی ایپ امریکا میں تیزی سے مقبول ہونے لگی
بعد ازاں اگلے روز محققین نے رضاکاروں سے سوالات پوچھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ رضاکاروں کو منفی یادوں کو یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو خوشیوں کے ساتھ مل گئی تھیں۔ اس کے بجائے، خوشگوار یادیں زیادہ آسانی سے ذہن میں آ گئیں۔
محققین نے بتایا کہ ’ہم نے محسوس کیا کہ نیند کی ایک سادہ سی تکنیک بری یادوں کو مٹانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ یہ تکلیف دہ یادوں کے ساتھ لوگوں کے علاج کا نیا طریقہ بن سکتا ہے‘۔