جوڈیشل مارشل لاءاور ریورس انجینئرنگ، آگے کیا ہونے جا رہاہے؟
احمد منصور
Stay tuned with 24 News HD Android App
جس طرح آمریت کی ہر شکل ملک و قوم کیلئے زہر قاتل ہے اسی طرح مارشل لاء چاہے سول ہو ، فوجی ہو یا جوڈیشل، ۔۔۔۔۔ اس کی وجہ سے نظام حکومت و مملکت کی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں، پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی جونہی ایک طرح کے مارشل لاء سے جان چھوٹتی ہے تو دوسری قسم کا مارشل لاء مسلط ہو جاتا ہے، 1971ء میں یحییٰ خان کے فوجی مارشل لاء سے جان چھوٹی تو ذوالفقار علی بھٹو نے پہلا سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر زمام اقتدار سنبھال لی، 2000ء کے عشرے کے آخر میں پرویز مشرف کے فوجی مارشل لاء کے اختتام کا آغاز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جوڈیشل مارشل لاء سے ہوا، اور مملکت خدادا کا نظام ایک نئی قسم کی دھونس دھاندلی تلے کچلا جاتا رہا جس نے بظاہر آئین و قانون کی سربلندی کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔
پی ٹی آئی والے نواز شریف کے طرز حکمرانی پر سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی پھبتی کستے ہیں تو ن لیگ والے عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کو بدترین شخصی آمریت کے مترادف قرار دیتے ہیں، دوسری طرف پیپلز پارٹی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سندھ میں زرداری آمریت پنجے گاڑے ہوئے ہے، یوں دیکھا جائے تو یہ مملکت ناپرساں ہر وقت کسی نہ کسی قسم کے مارشل لاء ہی کی زد میں رہی ہے، آج کل حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اسے یار لوگ ایک بار پھر جوڈیشل مارشل لاء سے تعبیر کر رہے ہیں اور یہ پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اس بار 2000ء کے عشرے کے آخر والے تلخ تجربے کی ریورس انجینئرنگ ہونے جا رہی ہے۔
ضرورپڑھیں:لاہور پولیس عمران خان اور بشریٰ بی بی کا بیان قلمبند کرنے میں ناکام
یعنی 16 سال پہلے معاملہ فوجی مارشل لاء سے جوڈیشل مارشل کی طرف گیا اور آج ملک کے جو حالات ہیں وہ جوڈیشل مارشل لاء سے فوجی مارشل لاء کی طرف جانے والی بات نظر آ رہی ہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد فوجی مارشل لاء کو جوڈیشل مارشل لاء سے بہتر خیال کرتی ہے ، ان کے موقف میں خاصا وزن بھی ہے کہ فوجی مارشل لاء میں آمرانہ فیصلہ کرنے والی اتھارٹی سامنے ہوتی ہے اور اپنے فیصلے کی ذمے دار بھی ہوتی ہے لیکن جوڈیشل مارشل لاء ایک طرح کا پراکسی مارشل لاء ہوتا ہے کہ آمریت مسلط تو کی جاتی ہے لیکن بھیس بدل کر ۔۔۔۔۔ اور اپنے فیصلوں کی ذمےداری بھی نہیں لی جاتی، بعض کیسز میں تو جوڈیشل مارشل لاء کو گلیمرائز کرکے حق گوئی کا مقدس لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یعنی معاملہ کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
بھٹو کی پھانسی پر دستخط کرکے اس قلم کا تحفہ چیف جسٹس مولوی مشتاق نے چوہدری ظہور الٰہی کو دیا لیکن اس فیصلے کی تمام تر ذمےداری فوجی صدر ضیاء الحق پر ڈال دی گئی،
نواز شریف کا اقامہ نکال کر اسے سیاست و حکومت سے باہر کرنے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس ثاقب نثار تھے کہ جنہوں نے جوڈیشل ایکٹو ازم کے نام سے ایک طرح کا جوڈیشل مارشل لاء نافذ کر رکھا تھا لیکن اس فیصلے کا سارا ملبہ اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا گیا۔
آدھی رات کو عدالتیں جسٹس اطہر من اللہ اور ان کے رفقاء کار نے کھول کر عمران خان کو گھر بھیجا لیکن اس جوڈیشل مارشل لاء کا سارا ملبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈال دیا گیا۔
آج مخصوص نشستوں کے کیس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک جج ایکسٹینشن لینے کے چکر میں تھا اور دوسرا ایکسٹینشن روکنے کے چکر میں ۔۔۔۔ اس چکر میں اصل آئینی تنازع گھن چکر بن گیا۔
فیصلہ نہ اس فریق کے حق میں آیا جس کو الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دی تھیں اور نہ اس فریق کے حق میں آیا جس نے سپریم کورٹ میں اپیل کر کے یہ نشستیں مانگی تھیں، بلکہ تھرڈ پارٹی کو دیدی گئیں جو فریق مقدمہ ہی نہیں تھا۔
اکثر لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ملک میں پولیٹیکل انجینئرنگ کی ذمےداری ہمیشہ فوج ، بیوروکریسی اور سیاست دانوں پر ڈالی جاتی رہی ہے لیکن ان اصل کرداروں کے بیرونی رابطوں کے حوالے سے کبھی کسی نے سوال نہیں اُٹھایا کہ جو پھانسی پر دستخط والا قلم تحفے میں دیتے ہیں یا اقامے پر نااہل کر کے پولیٹیکل انجینئرنگ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور کسی عالمی سازش کا حصہ ہونے کے الزامات کی زد میں بھی نہیں آتے ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو، کہ کرامات کرو ہو
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر