(امانت گشکوری) فیض آباد دھرنا کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سچ اگلوانا ہو تو ایک تفتیشی بھی اگلوا لیتا ہے اور نہ اگلوانا ہو تو آئی جی بھی نہیں اگلوا سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چار جنرلز پر مشتمل کمیشن ہوتا تو ٹھیک ہوتا؟ ریٹائرڈ افسران سے انکوائری کرانے کا مقصد آزادانہ انکوائری ہو سکتا ہے، انکوائری کمیشن کارکردگی دکھا دے تو پھر اس کا احتساب کریں گے،کمیشن جسے بلائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتاہے،ابھی کمیشن نے کام شروع ہی نہیں کیا تو شک کیسے کریں؟ابصار عالم نے جواب دیا کہ میں اس ملک کی تاریخ کی بنیاد پر شک کا اظہار کررہا ہوں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کمیشن کو اختیار ہے وہ سابق وزیر اعظم ،ڈی جی آئی ایس آئی سمیت کسی کو بھی بھلا سکتا ہے، کوئی استثنی تو نہیں دیا کہ کمیشن کسی کو نہیں بلا سکتا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے کوئی استثنی نہیں دیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیں :شوہر سے تنہائی میں ملاقات کرائی جائے، بشریٰ بی بی کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
اس سے قبل سپریم کورٹ میں قتل کیس میں مفرور رہ کر سرنڈر کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی ،،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے مفرور ملزمان سے متعلق ریمارکس میں کہاکہ پہلے غائب رہنا اور شریک ملزم کے بری ہونے پر سرنڈر کر دینا اس عمل میں سہولتکاری نہیں کریں گے،9 سال مفرور رہنے والے ملزم کی درخواست ضمانت واپس لینے پر خارج کر دی گئی۔
وکیل درخواست گزارنے کہا کہ شریک ملزم کو ہائیکورٹ بری کر چکی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ شریک ملزم بے قصور تھا شاید اسی لیئے نہ بھاگا ہو، آپ کا موکل بھاگا کیوں تھا؟ وہ شاید قصور وار ہو،ہم آپ کو میرٹس پر جائے بغیر ضمانت دینا چاہتے تھے،آپ میرٹس پر جانا چاہتے ہیں تو سب لکھ دیتے ہیں،آپ ضمانت نہیں لینا چاہتے تو میرٹس پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔
وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے پر خارج کر دی گئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی