(اظہر تھراج )حکومت غیر قانونی وی پی اینز کے استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات کر رہی ہےاور اب ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کی بندش یا بلاکنگ کے معاملے میں ہوش ربا انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کی بندش ملکی سالمیت کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بے تحاشا غیر قانونی یو آر ایلز اور غیر اخلاقی مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو تصدیق کے بعد بلاک کیا جا رہا ہے۔ان یو آر ایلز اور ویب سائٹس کی فرانزک چھان بین کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ دہشتگرد وی پی اینز کا استعمال کرکے اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں اور ان غیر قانونی وی پی اینز کے ذریعے پروپیگنڈہ اور جعلی معلومات کی تشہیر کر ر ہے ہیں۔اس سلسلے میں متعدد اکاؤنٹس کی شناخت کر لی گئی ہے جن کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
گمراہ کن مواد کا پھیلاؤ غیر رجسٹرڈ وی پی این کے ذریعے آسانی سے ممکن ہے،دہشت گرد اپنی شناخت چھپا کر دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ غیر مصدقہ وی پی این کے استعمال سے دہشتگرد بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں جس کا فوری تدارک ضروری ہے۔اور یہی وجہ ہےکہ پی ٹی اے نے پاکستان میں غیررجسٹرڈ وی پی این بلاک کرنا شروع کردیے ہیں۔اب ایک طرف وی پی اینز کے ذریعے دہشتگردی کی کارروائیوں کا خدشہ ہے تو دوسری جانب غیر معیاری وی پی اینز کی وجہ سے صارفین کا ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے ۔
ضرورپڑھیں:ایک بعد ایک ’نازیبا‘ویڈیو لیک ، ماجرا کیا ہے؟مناہل ملک کے بعد متھیرا بھی بول پڑیں
ماہرین کے مطابق سارے ان پیڈ وی پی اینز غیر معیاری نہیں ہوتے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو بہت معیاری سروسز فراہم کرتے ہیں جبکہ کچھ وی پی اینز فری سروس تو دیتے ہیں مگر ہیکرز موبائل اور کمپیوٹر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے ڈیٹا چرا لیتے ہیں۔ایسے وی پی اینز کی سروسز انتہائی غیر معیاری ہوتی ہیں اور وہ پیسے کی خاطر اپنے صارفین کا ڈیٹا کسی کو بھی بیچ سکتے ہیں لہٰذا ان سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جیسے کہ اکاؤنٹس کا ہیک ہو جانا یا پاسورڈز کا چوری ہو جانا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پیڈ وی پی اینز کا معاملہ دراصل یہ ہے کہ جتنا بھی ڈیٹا ہوتا ہے وہ ان وی پی این کمپنیوں کے سرور کے ذریعے راؤٹ ہو رہا ہوتا ہے اور جب ڈیٹا ان سرورز کے ذریعے سے ہوتا ہوا اپنی لوکیشن پر جاتا ہے تو وہ وی پی این فراہم کرنے والی ان کمپنیوں کے پاس بھی جا رہا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں بہت ہی آرام سے ڈیٹا لیک یا پھر اکاؤنٹس ہیک ہو سکتے ہیں اور کوئی فائل، پاسورڈ، فنانشل ڈیٹا یا جو کچھ بھی صارفین اِن وی پی اینز کی مدد سے کھولتے ہیں تو وہ ڈیٹا اُن کے پاس چلا جاتا ہے اور لیک ہوجاتا ہے جو پھر ہیکرز تک پہنچ سکتا ہے جس سے سارفین کو مالی، سماجی اور ذاتی نقصان ہوسکتا ہے۔
اب جتنی بھی کمپنیاں مفت وی پی این مہیا کر رہی ہوتی ہیں اس سے وہ کوئی نہ کوئی فائدہ بھی حاصل کر رہی ہوتی ہیں اور بعض اوقات اِن وی پی اینز کے ذریعے فون یا کمپیوٹر میں وائرس خودبخود بھی گھس جاتا ہے جس سے بعد میں بھی ڈیٹا ہیک ہو سکتا ہے۔ یہ تمام نقصانات کسی بھی انسان کو ان پیڈ وی پی اینز کے استعمال سے ہو سکتے ہیں، سوائے 4 سے 5 بڑی کمپنیوں کے جن کے وی پی اینز قابل اعتماد ہیں جن کی سبسکرپشن کی اچھی خاصی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔