معروف صحافی اور دانشورخالد احمد   80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے

Nov 17, 2024 | 22:41:PM
معروف صحافی اور دانشورخالد احمد   80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
کیپشن: صحافی خالد احمد ،فائل فوٹو
سورس: 24 نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) ممتاز ادیب، سینئرصحافی اور قابل احترام دانشور خالد احمد آج 80 برس کی عمر میں زمان پارک لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔

دوسری جنگ عظیم کے ہنگامہ خیز دور میں (1943 میں) جالندھر میں پیدا ہونے والے خالد احمد پاکستانی صحافت کی ایک بلند پایہ شخصیت تھے جو اپنے تیکھے تجزیے اور بصیرت افروز تبصروں کے لیے مشہور تھے، چار دہائیوں پر محیط ان کا کیریئر سچائی سے وابستگی اور فکری گفتگو کے لیے غیر متزلزل لگن سے نشان زد تھا جس نے پاکستان میں میڈیا کے منظر نامے پر دیرپا اثر چھوڑا۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم یافتہ  خالد احمد نے رول آف آنر کے ساتھ ایم اے (آنرز) کی ڈگری حاصل کی،اس کی علمی ذہانت روایتی علوم سے آگے بڑھی، اس نے جرمن اور روسی زبانوں میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا، جو زبانوں اور عالمی ثقافتوں میں ان کی گہری دلچسپی کی عکاسی کرتا ہے،اس متنوع تعلیمی پس منظر نے ان کی تحریر کو تقویت بخشی، اسے ایک منفرد تناظر دیا جو پاکستان اور بیرون ملک قارئین کے دل کی گہرائیوں سے گونجتا ہے۔

پاکستان کے فکری تانے بانے میں ان کی سب سے نمایاں خدمات میں سے ایک ان کی کتاب’فرقہ وارانہ جنگ‘پاکستان میں سنی-شیعہ تنازعہ تھی جو 2006 میں شائع ہوئی تھی،واشنگٹن ڈی سی میں ووڈرو ولسن سینٹر میں ان کی رفاقت کے دوران لکھی گئی  اس بنیادی کام کوملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو سمجھنے کے لیے ایک ضروری متن کے طور پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔

اپنے شاندار کیرئیر کے دوران خالد احمد پاکستان ٹائمز، دی نیشن، دی فرنٹیئر پوسٹ، دی فرائیڈے ٹائمز، اور دی ڈیلی ٹائمز سمیت کئی ممتاز اشاعتوں سے وابستہ رہے،ان میں سے کچھ معزز اداروں کے بند ہونے کے باوجود ان کی آواز ایک رہنما قوت بنی رہی کیونکہ وہ نیوز ویک پاکستان کے مشاورتی ایڈیٹر کے طور پر قارئین کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، اُن کے کالم  جو اُن کے سخت تجزیے اور گہری عاجزی کے لیے مشہور تھے،انصاف اور سچائی کی جستجو کے لیے اُن کی گہری وابستگی کا ثبوت تھے۔

یہ بھی پڑھیں:کسی کو بھی انتشار کی اجازت نہیں دی جائیگی، عطا تارڑ

اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں سے ہٹ کر خالد احمد کو وہ لوگ پسند کرتے تھے جو انہیں ذاتی طور پر جانتے تھے، وہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک رہنما ،دلکش گفتگو کرنے والا اور صحافیوں و دانشوروں کے لیے یکساں حکمت کا ذریعہ تھا۔

 اس کی عاجزی، مہربانی، اور روح کی سخاوت نے ہر اس شخص پر ایک انمٹ نشان چھوڑا جس کا اس نے سامنا کیا،آج پاکستان صحافت کے ایک حقیقی دیو اور فکری سالمیت کے مینار کے کھو جانے پر سوگوار ہے،خالد احمد کی وراثت مصنفین اور مفکرین کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔

اللہ اسے ابدی سکون عطا فرمائے اور ان کی روح کو سلامت رکھے۔

یہ بھی پڑھیں :اے این پی کے سابق سینیٹر الیاس احمد بلورانتقال کر گئے