عمران خان کی قید کے 590 دن ، حکومت ہمت ہار گئی
از : عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
عمران خان ممی ڈیڈی کلاس کا نمائندہ ہے ایک دن کیلئے جیل نہیں کاٹ سکتا یہ گرفتاری سے بچنے کیلئے دیوار پھلانگ گیا تھا ، یہ لیڈر نہیں گیدڑ ہے ، نشہ کئے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتا ، ہمارے لیڈران نے بہادری سے جیل کاٹی ہے ، یہ وہ سب بیانیے تھے جو مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور ان کی تمام اتحادی جماعتیں عمران خان کے حوالے سے بناتی رہی ہیں ،پاکستان کے بیشتر تجزیہ کار اور کالم نویس بھی اسی بات کی حمایت کرتے نظر آتے تھے عمران خان کے ساتھ "پلے بوائے " ہونے کی جو داستانیں وابستہ ہیں آپ سے بھی یہی تاثر جاتا تھا کہ عمران ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ناز و نعم میں پلا ، پھر کرکٹ جیسی گیم کا ہیرو جسے خواتین ایک دیوتا کے روپ میں پیار کرتی تھیں وہ جیل اور قید تنہائی کی صعوبتیں کیسے برداشت کرئے گا مجھ سمیت کم و بیش سب کا یہی ماننا تھا لیکن اپنی گرفتاری سے لیکر آج تک عمران خان نے اگر قید میں 590 دن مکمل کر لئے ہیں تو یہ واقعی ایک اہم سیاسی اور ذاتی سنگ میل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے گنڈا پور کو "عضو معطل"بنا دیا؟ بشریٰ بی بی کامیاب
خاص طور پر ان تمام مخالفین اور تجزیہ کاروں کیلئے جو یہ کہتے تھے کہ وہ قید برداشت نہیں کر سکیں گے، یہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں (ہم اُن کے اس سیاسی موقف سے اتفاق کریں یا نہ کریں) اور اس جدوجہد میں پیچھے ہٹنے والے نہیں، اس سے ان کی سیاسی حمایت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ قید برداشت کرنا ایک ایسی خوبی سمجھی جاتی ہے جو ایک لیڈر کی استقامت کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ صورتحال سیاسی مخالفین کیلئے ایک چیلنج بن گئی ہے ، کیونکہ ایسے واقعات عوام میں ایک ہمدردی کی لہر پیدا کرتے ہیں اور قائد کو ایک مضبوط، باعزم شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں، عمران خان کی گرفتاری اور قید کا وقت پاکستانی سیاست میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ 8 مئی 2023 کو گرفتاری کے بعد، مختلف سیاسی رہنماؤں نے عمران خان کے بارے میں بیانات دیئے، جن میں سے کئی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ قید کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ یہ بیانات نہ صرف میڈیا کی زینت بنے بلکہ سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بھی بنے۔ اس مضمون میں ہم ان بیانات اور ان کے اثرات پر نظر ڈالیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ رشید کی سیاست ختم ، بشریٰ بی بی کا کشف اور گیٹ نمبر 4
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ "عمران خان قید کے حالات برداشت نہیں کر سکیں گے۔" انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان جیل میں چند دنوں کے اندر اپنی سیاسی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا: "عمران خان کو جب اپنے کئے کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ خود کو بے بس محسوس کریں گے۔" ان کے اس بیان کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان جیل کے دباؤ میں آکر اپنے سیاسی بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب جنابہ مریم نواز نے کئی مواقع پر عمران خان کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "عمران خان جیل میں رہنے کے قابل نہیں ہیں، وہ جلد ہی اپنی رہائی کے لیے سمجھوتے کریں گے۔" یہ بیان ان کے سیاسی حریف پر ایک تنقیدی حملہ تھا، جس کا مقصد ان کی شخصیت کو کمزور دکھانا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا: "عمران خان نے کبھی مشکلات کا سامنا نہیں کیا، وہ قید میں زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔" ان کے اس بیان نے پی ٹی آئی کے حامیوں میں غم و غصہ پیدا کیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا: "عمران خان نے ہمیشہ اپنی ذات کو ترجیح دی ہے، قید کے دوران وہ اپنی پارٹی کو بھی تنہا چھوڑ دیں گے۔" ان کے اس بیان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ عمران خان کے پاس مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ان سیاسی بیانات نے پاکستانی سیاست میں مزید گرما گرمی پیدا کی۔ عمران خان کے حامیوں نے ان بیانات کو ان کے خلاف "منفی پروپیگنڈا" قرار دیا، جبکہ مخالفین نے انہیں سچائی کے قریب کہا۔ تاہم، وقت نے ان تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کیا۔ عمران خان نے نہ صرف قید میں 590 دنوں کا عرصہ گزارا بلکہ اپنی استقامت اور حوصلے سے اپنے مخالفین کے بیانیے کو کمزور کیا۔ یہ صورتحال ان کے سیاسی کردار کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنی اور ان کے حامیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔
عمران خان کے بارے میں مخالفین کے بیانات کہ وہ قید برداشت نہیں کر سکیں گے، ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھے لیکن عمران خان نے اپنی قید کے دوران ثابت کیا کہ وہ مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کے سیاسی کیریئر کا ایک ایسا باب ہے جو ان کی قیادت اور شخصیت کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی قید کی مدت نے ان کے سیاسی مخالفین کیلئے ایک سبق چھوڑا ہے کہ قیادت صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل اور استقامت کا نام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے حوصلے اور استقامت سے اپنے مخالفین اتحادی جو حکومت میں ہیں کو نا صرف غلط ثابت کیا بلکہ اب تو حکومتی ہمت بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے عمران خان کے ساتھ موجود وکیل لیڈر شپ اگر سودا نا کر گئی تو عمران خان جیل سے پہلے سے بھی ذیادہ مضبوط لیڈر بن کر ابھریں گے ہمیں اُن کے طرز سیاست سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اُن کی مقبولیت کے سحر کو توڑنے مین تمام جماعتین آج بھی ناکام دکھائی دیتی ہیں ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر