پشاور ہائیکورٹ کا اسد قیصر کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم

Feb 18, 2025 | 15:09:PM
پشاور ہائیکورٹ کا اسد قیصر کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)پشاور ہائیکورٹ نے رہنما پی ٹی آئی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو 8 اپریل تک درج مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس عبدالفیاض نے اسد قیصر کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی، سابق سپیکر قومی اسمبلی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ گزشتہ 10 سال سے ہر رمضان المبارک میں عمرہ کیلئے جا رہا ہوں، اس رمضان میں بھی عمرہ کے لئے جانے کا ارادہ ہے، اس لئے تاریخ رمضان المبارک کے بعد دی جائے۔

 مزید پڑھیں:عمران خان جیل سے کب نکلیں گے؟ اسد قیصر نے بتادیا

جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس سے پوچھتے ہیں کہ رپورٹ آئی ہے کہ نہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں ٹائم دیا جائے، رپورٹ جمع کرائیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے اسد قیصر کو 8 اپریل تک حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے انہیں درج مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ کرم میں کل جو واقعات ہوئے اس کی مذمت کرتا ہوں، 5 لوگ شہید ہوگئے ہیں، اگر آپ ایسی پالیسی بنائیں کہ اس سے ایک صوبہ متاثر ہو تو پھر ایسی صورتحال پیش آتی ہے، امن و امان کی بحالی سٹیٹ کا کام ہے۔

 مزید پڑھیں:موجودہ پارلیمان صرف آرڈر کی تابع ہے ،عوامی نمائندے نہیں،اسد قیصر

ان کا کہنا تھا کہ افغان پالیسی نئے سرے سے بنانی چاہیے، تمام سٹیک ہولڈر کو مل کر نئی پالیسی بنانا ہوگی، اس وقت ملک میں قانون نہیں ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس اسمبلی کی خود کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سے یہ قانون سازی کر رہے ہیں، جعلی اسمبلی سے قانون سازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس کو ہم واپس لیں گے، جو بھی قانون عوام کے حقوق کے خلاف ہے وہ نہیں ہونا چاہیے۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کر رہے ہیں، ہم قانون کی بالادستی کے حوالے سے ایجنڈا بنائیں گے، ہم قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، ملک میں ایسا شفاف الیکشن ہونا چاہیے جس پر کوئی جماعت اعتراض نہ کرے، ہمارے دور میں جب پیکا ایکٹ پر صحافیوں کا اعتراض آیا تو اس کو واپس لیا گیا تھا۔