(24 نیوز) پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی تفصیلات منظرِ عام پر آ گئیں۔
24 نیوز کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق آئینی ترمیم بل کو 56 سے کم ہوکر 26 ترامیم تک محدود کر دیا گیا، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی جائے گی، چیف جسٹس کی تقرری 3 سال کے لیے 3 رکنی پینل میں سے پارلیمانی کمیٹی عمل میں لائے گی، چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقرری 3 سال کے لیے ہو گی، تقرری سنیارٹی کی بجائے 3 رکنی پینل میں سے ہو گی، چیف جسٹس کی تقرری 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق سپریم کوٹ میں آئینی بنچ کی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی، آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، آئینی مقدمات آئینی بنچ کو منتقل، عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا، چیف جسٹس سے سْوموٹو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنے کی بھی تجویز شامل ہے۔
چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں آ رٹیکل 184میں ترمیم تجویز کی گئی ہے، چیف جسٹس سے سْوموٹو نوٹس لینے کا اختیار ختم کیا جائے گا، آرٹیکل 179میں ترمیم کی تحت چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے، آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز شامل ہے، مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی۔
چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو 3 سال کے بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی کمیٹی 12 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گی، 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ سے لئے جائیں گے، خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے سنیئر ترین 3 ججز میں سے ایک جج کا بطور چیف جسٹس تقرر کرے گی، چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کوٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل عمل میں لانے کی تجویز دی گئی، آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گے، تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گا، آرٹیکل 209 میں مجوزہ ترمیم کے تحت عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز دی گئی، سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ، جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، 4 سینیئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور پاکستان بار کونسل کے سنیئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے، ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن 4 اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے، کمیشن میں 2 اراکین قومی اسمبلی اور 2 سینیٹ سے لئے جائیں گے، 2 حکومت اور 2 اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ ہوں گے، حکومت کی طرف ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیر اعظم تجویز کرے گا، اپوزیشن کی طرف سے 2 نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔
حکومت کی جانب سے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی گئی، جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی جائزہ لے سکے گا، صدر مملکت، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کا تجویز کے تحت پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار کیا جائے گا، پارٹی سربراہ اْس کے بعد کارروائی کا مجاز ہوگا، آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کر سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:سونا ہزاروں روپے مہنگا،قیمت تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی