امریکہ کا مستقبل انتخابی نتائج کے ساتھ معلق ہے؟

اسلم اعوان

Jun 19, 2024 | 17:04:PM
امریکہ کا مستقبل انتخابی نتائج کے ساتھ معلق ہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24 News
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ڈونلڈ ٹرمپ کی مجرمانہ سزا اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ عدالتی عمل کے ذریعے سزا پانے والے وہ پہلے صدر اور بڑی پارٹی کے ممکنہ نامزد امیدوار ہیں، جیوری نے انہیں 2016 کے صدارتی انتخابات کے آخری ہفتوں میں ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کی طرف سے بالغ فلم سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو دی گئی رقم کی ادائیگی سے متعلق کاروباری ریکارڈ میں ردّ و بدل کرنے کے 34 الزامات میں مجرم قرار دیا، من ہٹن میں جیوری اب 11 جولائی 2024 کو انہیں قید و جرمانہ کی سزا سنائے گی، تاہم الجھن یہ ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سیاست کے نازک مسئلہ پر کئی سالوں سے غیر معمولی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی انتخابی نتائج پر بھروسہ نہیں کیا، اگر جیت جائے تو وہ انتخابی نتائج پر سوال اٹھاتا ہے، ہار جائے تو نتائج تسلیم نہیں کرتا، خدشہ ہے، یہی طرز عمل امریکی جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش بنا دے گا ۔

اس وقت ٹرمپ کو جن چار فوجداری مقدمات کا سامنا ہے ان میں 2020 کے انتخابی نتائج کو الٹنے کی سازش اور وائٹ ہاؤس چھوڑتے وقت خفیہ دستاویزات چرانے کے الزامات شامل ہیں، ماہرین اکثر تاریخ کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے اندازے لگاتے ہیں لیکن امریکی سیاست کے ریکارڈ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی چنانچہ امریکیوں کی اجتماعی دانش کے لئے موجودہ حالات اور مابعد کی تفہیم دشوار ہوتی جا رہی ہے، پولز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صدر جوبائیڈن کے ساتھ شماریاتی طور پر ہم پلہ اور بہت سی اہم ریاستوں میں معمولی برتری رکھتے ہیں تاہم گزشتہ موسم سرما میں ریپبلکن پرائمریز کے دوران کرائے گئے ایگزٹ پولز میں، ووٹروں کی قابل لحاظ تعداد نے کہا، اگر سابق صدر کو کسی جرم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تو وہ اسے ووٹ نہیں دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایکشن  شروع

ایپسوس اور اے بی سی نیوز کے اپریل میں کرائے گئے سروے سے بھی اس امر کی تصدیق ہوئی کہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والوں میں سے 16 فیصد ایسی صورتحال میں اپنی حمایت پر نظر ثانی کریں گے، لیکن کمرہ عدالت سے نکلتے ہی ٹرمپ نے کہا اصل فیصلہ 5 نومبر کو ووٹرزکریں گے، مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ امریکی ووٹرز اس وقت تک ہش منی کیس بارے کم سختی محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق 8 سال قبل پیش آنے والے واقعات سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا اگرچہ کسی جرم پر سزا یافتہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں لیکن نومبر میں ووٹر جس چیز بارے سوچیں گے وہ مہنگائی، جنوبی سرحد، چین اور روس کے ساتھ مقابلہ اور اسرائیل اور یوکرین پر خرچ ہونے والے غیر محدود وسائل ہیں، تاہم مقابلہ سخت ہے، ٹرمپ کی حمایت میں تھوڑی سی کمی اسے شکست سے دوچار کر سکتی ہے، جیسے وسکونسن یا پنسلوانیا جیسی اہم ریاست میں رہنے والے چند ہزار ووٹرز کی رائے بدلنے سے مجموعی فرق پڑ سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا اثر پڑے گا،خاصکر نوجوان رائے دہندگان اور وہ لوگ جو کالج سے تعلیم یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں رہتے ہیں، ٹرمپ کے طرز حکمرانی اور انداز فکر بارے پریشان ہیں،ہرچند کہ ووٹرز واقعی ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں ریپبلکن پارٹی کو ووٹ دینے سے ہچکچا رہے ہیں لیکن سرکردہ ریپبلکن، جن میں سے بہت سے پارٹی کے نامزد امیدوار کے ساتھ وفاداری کے اظہار کے لئے مقدمہ کی سماعت میں شریک ہوئے،ٹرمپ کی حمایت پہ کمر بستہ ہیں۔

ایوان کے سپیکر مائیک جانسن نے عدالتی فیصلہ کو امریکی تاریخ کا شرمناک واقعہ کہتے ہوئے اِسے قانونی نہیں بلکہ خالصتاً سیاسی مشق قرار دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے 8 سالوں سے جو ماہرین ٹرمپ کے ممکنہ سیاسی خاتمہ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں وہ غلط ثابت ہوں گے، ان کی 2016 کی صدارتی مہم بھی ایسے سکینڈلز کی گونج میں وقوع پذیر ہوئی جو ممکنہ طور پر ایک عام سیاستدان کو گرا دیتی، جس میں خواتین کو چھیڑنے بارے ٹرمپ کی ریکارڈ شدہ گفتگو بھی شامل تھی، جس کا تازہ مقدمے میں متعدد بار حوالہ دیا گیا لیکن ووٹرز نے ایسی باتوں کو نظرانداز کیا۔

اگرچہ مسٹر ٹرمپ کی پارٹی بڑی حد تک ان کے ساتھ مواخذے کی کاروائی کے خلاف انتشار، جیسے کیپیٹل ہل پر ان کے حامیوںکا دھاوا،میں پھنسی ہوئی ہے تاہم یہ تنازعات سابق صدر کو سیاسی بحالی سے نہیں روک سکے، اس کے باوجود حالات نے انہیں نومبر میں وائٹ ہاؤس واپس جیتنے کے مقابلہ تک پہنچا دیا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں ٹرمپ کی مسلسل حمایت حیران کن ہے، واقعی اس قسم کے سکینڈل نے کسی دوسرے امیدوار کو ختم کر دیا ہوتا، تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عدالتی فیصلہ خلل ڈالنے والے واقعات کی طویل سیریز میں تازہ ترین واقعہ ہے جو، بظاہر، ٹرمپ کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹ بنے گا، امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن لِچٹمین تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی مجرمانہ سزا اس قسم کا ’تباہ کن اور بے مثال‘ موڑ ہو سکتا ہے جو تاریخ کا دھارا بدل دے گا لیکن بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا ؟۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2024/25 کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، یہ بجٹ بُری بلا ہے

صدر بننے کے بعد ٹرمپ کی جن ترجیحات کو لوگ جانتے ہیں ان میں امیگریشن، مقامی معیشت اور خارجہ تعلقات میں امریکہ فرسٹ کے علاوہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے کوئی نہیں جانتا جیسے پیوٹن کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور ٹرمپ کے ممکنہ مالی تنازعات، ڈونلڈ ٹرمپ کاعالمی عدم مساوات دور کرنے کا تہیہ ،کارپوریشنز اور امیروں پر ٹیکس کم کرنے، افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کو منسوخ اور موسمیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کے علاوہ نیٹو کے مستقبل بارے عزائم بھی محل نظر ہیں لیکن دونوں امریکی صدارتی امیدواروں میں ماحولیات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اختلاف ہیں، ٹرمپ ماحولیاتی ضوابط کے کمزور ہونے اور بائیڈن قابل تجدید توانائی پر زور دیتے ہیں یعنی موسمیاتی تبدیلی ریاستہائے متحدہ میں سب سے زیادہ تقسیم کرنے والے موضوعات میں سے ایک ہے۔

3 ستمبر 2016 کو براک اوباما نے جس معاہدے کی توثیق کے لیے سینیٹ کو نظرانداز کرکے 4 نومبر کو باضابطہ نافذ کیا تھا، پانچ دن بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہوتے ہی حالیہ برسوں میں اٹھائے گئے اہم اقدامات کو پٹڑی سے اتارنے کی دھمکی دی، ٹرمپ نے کوئلے کے خلاف جنگ ختم، تمام وفاقی زمینیں پانی کی ڈرلنگ کے لیے کھولتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے تصور کو ’چینی دھوکہ‘ قرار دیا۔

20جنوری 2017 کی دوپہر، جیسے ہی ٹرمپ نے ریاستہائے متحدہ کے 45 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھایا، موسمیاتی تبدیلی کے تمام تذکرے وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے حذف کر دیے گئے، ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر زیادہ مقامی اقتصادی، سماجی یا ثقافتی شمولیت پیدا نہیں کرے گا، جس سے جمہوریت کی نفی اور بنیادی حقوق کی تحدید کے علاوہ کالے اور گورے میں تصادم کی فضا پروان چڑھے گی چنانچہ ان کا دوبارہ ابھرنا داخلی سلامتی کے لئے بنیادی انتباہ ثابت ہو گا ۔

ان کا اقتدار نسل پرستی کے خلاف بیداری اور جمہوریت کی ضرورت کو بھی اجاگر کرے گا، تاہم امریکہ کا اصل مسلہ اقتدار کی پُرامن منتقلی ہے، 2016 کے آخری صدارتی مباحثے میں، فاکس نیوز کے کرس والیس کی طرف سے سوال کہ کیا آپ ملک میں اقتدار کی پُرامن منتقلی کے اصول کی پابندی کریں گے ؟ ٹرمپ نے کہا تھا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ میں آپ کو اُس وقت بتاؤں گا لیکن الیکشن جیت کر صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے 2016 کے الیکشن کو شفاف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کے غیر قانونی ووٹ کاسٹ کرنے کا الزام لگایا۔

اب پھر ٹرمپ نے یہ کہنے سے انکار کر دیا کہ وہ انتخابی نتائج کو قبول کریں گے، وجہ ایک بار پھر، غیر قانونی ووٹنگ کے بے بنیاد دعوے لیکن تفصیلات بدل گئیں، 2020 میں ٹرمپ نے لاکھوں لوگوں کے غیر قانونی طور پر ووٹ ڈالنے کی سازش کے بجائے میل ان ووٹنگ بارے شکایت کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو 6 جنوری 2021 کو الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کے خلاف احتجاج کے لئے اکسایا تھا ۔

 ممکنہ طور پر اہم ریاستوں میں ریپبلکن قانون سازوں کے ذریعہ انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ اب وہ توقع کرتے ہیں کہ انتخابات ’ایماندارانہ‘ ہوں گے لیکن وہ واضح طور پر انتخابی نظام پہ اعتماد کا اظہار کرنے کو تیار نہیں، ٹرمپ نے کہا اگر 2024 کے انتخابات میں گڑبڑ ہوئی تو وہ بتا دیں گے لیکن میں ایماندارانہ انتخابات کی توقع اور جیت کی امید رکھتا ہوں، وہ اپنے خلاف مجرمانہ مقدمات کو انتخابی مداخلت کا رنگ دینے میں بھی مصروف ہیں تاکہ متوقع انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے لیے پہلے سے جواز تراش لیا جائے۔

علی ہذالقیاس، زیادہ تر ریپبلکن کو اب امریکی انتخابات پر اعتماد نہیں رہا،حال ہی میں 2006 کے طرز پر گیلپ کی پولنگ کے مطابق، جب 92 فیصد ریپبلکن پُراعتماد تھے کہ ووٹ درست طریقے سے ڈالے اور گنے جاتے ہیں، اسی طرح 70 فیصد آزاد اور 66 فیصد ڈیموکریٹس کا امریکی انتخابات کی درستگی پر یکساں یقین تھا، 2022 تک صرف 40 فیصد ریپبلکن نے کہا کہ وہ کسی حد تک پُراعتماد ہیں جبکہ 85 فیصد ڈیموکریٹس اور 67 فیصد غیرجانبداروںکا خیال تھا کہ ووٹ صحیح طریقے سے ڈالے اور درست گنے جائیں گے۔

اگرچہ اقتدار سے باہر پارٹی کے حامیوں کا انتخابی نظام بارے کچھ تحفظات کا ہونا فطری بات ہے لیکن 2018 کے بعد سے ریپبلکنز کے انتخابات کی شفافیت پر 77 فیصد اعتماد سے 2022 میں 40 فیصد تک کمی، قابل ذکر ہے، ڈیموکریٹس بھی انتخابی نتائج سے مایوس ہیں، اُن میں سے کوئی بھی یہ کہنا نہیں چاہتا کہ ٹرمپ کے حریف ٹرمپ کی جیت کو خوشی سے قبول کر لیں گے۔

2019 میں ٹرمپ سے ہارنے کے برسوں بعد، ہیلیری کلنٹن نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ٹرمپ ایک ’ناجائز صدر‘ ہیں کیونکہ 2016 میں دیگر چیزوں کے علاوہ ریپبلکنز نے ووٹنگ کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا تھا، متذکرہ بالا تناظر میں تو یہی لگتا کہ کوئی نادیدہ قوت سائنسی طریقوں سے امریکی رائے عامہ سمیت پورے ریاستی نظام کو استبدادی طرز حکمرانی کی طرف دھکیل رہی ہے۔